بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مدرس کا استعفیٰ دینے کے بعد شعبان اور رمضان کی تنخواہ کا مطالبہ کرنا


سوال

ایک مدرس رجب میں خود استعفیٰ دے دے تو کیا وہ شعبان اور رمضان کے مہینے کی تنخواہ کا مطالبہ کر سکتا ہے؟

تقرر کے وقت شعبان اور رمضان کی تنخواہ سے متعلق کوئی معاہدہ نہ ہوا تھا، مذکورہ مدرس  کا یہ پہلا سال تھا، ان کو  ہم نے تجرباتی طور پر رکھا تھا کہ اگر ہم مطمئن ہوئے تو مستقل کر دیں گے، پھر سال بعد ہم ان سے مطمئن نہ تھے، لیکن انہوں نے خود ہی رجب میں استعفیٰ دے دیا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب مدرسہ انتظامیہ کا مدرس سےکوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا بلکہ انہوں نے تجرباتی طور پر  رکھا تھا کہ مدرس کی کارکردگی دیکھ کر فیصلہ کریں گے لیکن مدرس نے خود ہی رجب میں استعفی دے دیا تو ایسی صورت میں وہ شعبان اور رمضان کے مہینے کی تنخواہ کے مستحق نہ ہوں گے۔

الأشباه والنظائر  لابن نجيم میں ہے:

"ومنها البطالة في المدارس، كأيام الأعياد ويوم عاشوراء، وشهر رمضان في درس الفقه لم أرها صريحة في كلامهم.

والمسألة على وجهين: فإن كانت مشروطة لم يسقط من المعلوم شيء، وإلا فينبغي أن يلحق ببطالة القاضي، وقد اختلفوا في أخذ القاضي ما رتب له من بيت المال في يوم بطالته، فقال في المحيط: إنه يأخذ في يوم البطالة؛ لأنه يستريح لليوم الثاني. وقيل: لا يأخذ (انتهى) .

وفي المنية: القاضي يستحق الكفاية من بيت المال في يوم البطالة في الأصح، واختاره في منظومة ابن وهبان، وقال: إنه الأظهر فينبغي أن يكون كذلك في المدارس؛ لأن يوم البطالة للاستراحة، وفي الحقيقة يكون للمطالعة والتحرير عند ذي الهمة."

( الفن الأول، القاعدۃ السادسۃ : العادۃ محکمۃ ، ص : 96 ، ط : قدیمی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610101667

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں