میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ میں اپنی اور بیٹیوں کی شادی کرتے وقت کن چیزوں کی رعایت رکھوں؟رخصتی اور ولیمہ کا طریقہ بھی بتا دیجیے۔
پوچھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے گاؤں میں بھی مہندی اور دیگر رسمیں شادی کے وقت جاری ہو گئی ہیں، اور میں ان تمام رسومات سے بچنا چاہتا ہوں۔
شادی کے موقع پر ہونے والے جائز و ناجائز افعال ذیل میں الگ الگ تفصیل سے ذکر کیے جاتے ہیں، ملاحظہ ہو:
منگنی نکاح کا وعدہ ہے، نکاح نہیں ہے، نکاح سے پہلے پیغام نکاح دینے والے کے لیے بحسب شرائط ایک نظر لڑکی کو دیکھنے کی اجازت ہے؛ اس لیے صرف دیکھنے کی حد تک اجازت ہے(1)، اس موقع پر لڑکے کا اپنی منگیتر کو انگوٹھی پہنانا شرعاً جائز نہیں ہے(2)، یہ محض ایک رسم ہے، شریعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے؛ اس لیے اس سے اجتناب ضروری ہے، نیز دونوں خاندانوں کے مردوں اور عورتوں کا مخلوط طور پر جمع ہونا اور مخصوص رسومات کرنا بھی بے اصل اور قابلِ ترک ہے۔
نکاح اور رخصتی کابہترطریقہ یہ ہے کہ مسجد میں نکاح کیا جائے(3)، نکاح کے بعد چھوارے وغیرہ تقسیم کیے جائیں، یہ سنت ہے (4)، پھر نکاح کے بعد لڑکی کو اس کے محارم کے ذریعے دولہا کے گھر پہنچا دیا جائے اور اگر خود دولہا اور اس کے گھر والے جا کر دلہن کو لے آئیں تو یہ بھی جائز ہے ،اس میں بھی شرعاً کوئی حرج نہیں۔
لڑکی کی رخصتی کے لیے باقاعدہ طور پر بارات لے جانا ،جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا رخصتی کے بارے میں یہ بھی معمول تھا کہ لڑکی کاباپ یا ولی لڑکی کو تیار کرکے خود یا کسی اورمعتمد کے ہم راہ دولہا کے گھر پہنچا دیتا، جیسا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کے بارے میں واضح روایات ہیں کہ آپ کو ام ایمن رضی اللہ عنہا کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر روانہ کیا گیا اور ظا ہر ہے کہ حضرت ام ایمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آزاد کردہ باندی تھیں، نہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی،معلوم ہوا کہ ام ایمن رضی اللہ عنہا لڑکی والوں کی طرف سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو چھوڑنے گئی تھیں، نہ کہ لڑکے والوں کی جانب سے لینے آئی تھیں۔(5)
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی کے بارے میں بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے کہ آپ کی والدہ آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں پہنچا کر آئیں، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لے گئے تھے، نہ آپ نے کسی کو بھیجا تھا(6) اور یہ بھی ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو دلہن کو لینے کے لیے بھیجا ہے۔ جیسا کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی شادی میں پیش آیا۔(7)
نکاح کے دنوں میں اگر رشتہ دار خواتین وحضرات اور دوست واحباب جمع ہوجائیں یا ان کو بلا لیا جائے اور غیر شرعی امور وبے جا تکلفات سے اجتناب کیا جائے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔ البتہ بوقتِ رخصتی سادگی اختیار کرنا بہتر ہے (8)،خرافات اور ناجائز کاموں سے اجتناب لازم ہے ۔غرض اسلامی مزاج یہ ہے کہ جتنی سادگی اور بے تکلفی سے آدمی اس ذمہ داری سے سبک دوش ہو یہ زیادہ بہتر اور قابلِ ستائش ہے۔ اس میں میزبانوں کے لیے بھی آسانی ہے اور مہمانوں کی بھی راحت ہے۔
نکاح کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے کھانے کے انتظام کا ثبوت کسی صحیح حدیث سے نہیں؛ اس لیے اس طرح کی دعوت کرنا ولیمہ کی طرح سنت نہیں ہے، تاہم اگر کوئی نمود ونمائش سے بچتے ہوئے، کسی قسم کے مطالبہ اور خاندانی دباؤ کے بغیر اپنی خوشی ورضا سے اپنے اعزہ اور مہمانوں کوکھانا کھلائے تو یہ مہمانوں کا اکرام ہے، اور اس طرح کی دعوت کا کھانا کھانا بارات والوں کے لیے جائز ہے(9)، اور اگر لڑکی والے اس کو لازم سمجھیں اور اس کے اہتمام کے لیے قرضے لیے جاتے ہوں تو ایسی دعوت کرنا جائز نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ شریعت میں جہیز نکاح کا کوئی لازمی جز نہیں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں نکاح کے وقت لڑکی کو جہیز دینے کا عمومی رواج نہیں تھا، صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی میں جہیز کا ذکر ملتا ہے لیکن اس کے بارے میں بھی علماء کی دو آراء ہیں۔
بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ یہ جہیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے اپنی صاحبزادی کو عطا فرمایا تھا، (10) جب کہ دوسرے بعض کی علماء کی رائے یہ ہے کہ جہیز کا سامان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مال سے اور ان کے پیسوں سے خریدا تھا، اور چوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سرپرست بھی تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مال سے جہیز کا سامان خرید کر ان کے گھر میں ضرورت کے سامان کا انتظام فرمایا تھا۔(11)
اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے بھی جہیز کا سامان خرید کر اپنی صاحبزادی کو عطا فرمایا ہو تو روایات میں جہیز کی جن چیزوں کا ذکر ملتا ہے وہ صرف گھریلو ضرورت کی وہ چیزیں تھیں جو روز مرہ کے استعمال کی تھی، نسائی کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جہیز میں ایک پلو دار چادر، ایک مشکیزہ اور ایک تکیہ دیا تھا جس میں اذخر گھاس بھری ہوئی تھی(12)، مسند احمد کی روایت میں ہے کہ ایک لحاف، ایک گدّا، دو چکیاں، ایک مشکیزہ اور دو مٹی کے گھڑے جہیز میں عطا فرمائے تھے(13)، مواہبِ لدنیہ کی روایت میں ایک چارپائی کا بھی ذکر ملتا ہے۔(14)
ان تمام روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہیز میں جو سامان عطا فرمایا تھا، وہ انتہائی مختصر اور گھریلو ضرورت کا سامان تھا، اس لیے علماء فرماتے ہیں کہ باپ اپنی خوشی سے بیٹی کو رخصتی کے وقت اپنی حیثیت کے مطابق اگر کچھ ضرورت کا سامان دینا چاہے تو شرعاً جائز ہے۔ ایسی صورت میں بچی کے لیے جہیز لینا جائز ہے، اور بچی ہی جہیز کے سامان کی مالک ہوگی۔
البتہ جہیز کے نام پر لڑکے والوں کا مطالبہ کرنا یا معاشرتی دباؤ کی وجہ سے محض رسم پوری کرنے کے لیے لڑکے والوں کو سامان دینا پڑے اور مذکورہ سامان دینے میں بچی کے والدین کی رضامندی بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں لڑکے والوں کے لیے ایسا جہیز لینا ناجائز ہے۔
"مایوں بٹھانے" کی رسم کی کوئی شرعی اصل نہیں، اس میں دلہن کو علیحدہ بٹھایا جاتا ہے اور کسی کو اس سے ملاقات کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔لہذا اس کو ضروری سمجھنا اور محارِمِ شرعی تک سے پردہ کرادینا نہایت غلط بات ہے،اسی طرح لڑکی کو مہندی لگانا تو بُرائی نہیں، لیکن اس کے لیے تقریبات منعقد کرنا اور لوگوں کو دعوتیں دینا، جوان لڑکوں اور لڑکیوں کا شوخ رنگ اور بھڑکیلے لباس پہن کر بے محابا ایک دُوسرے کے سامنے جانا بے شرمی و بے حیائی کا مرقع ہے، مہندی کی رسم جن لوازمات کے ساتھ ادا کی جاتی ہے، یہ بھی غیر شرعی رسم ہے۔
شادی کے موقع پر حسبِ استطاعت ولیمہ کی دعوت سنت ہے۔(15)حسبِ استطاعت دعوت کرلینے سے ولیمہ کی سنت ادا ہوجائےگی، ولیمہ کے لیے بڑی دعوت کرنا ضروری نہیں، نیز دعوتِ ولیمہ میں اعزہ واقارب کےساتھ ساتھ دوستوں اورپڑوسیوں کو بھی حسبِ استطاعت دعوت دی جائے،غریبوں کو بھی ولیمہ کی دعوت دی جائے، صرف مالداروں کو ولیمہ میں نہ بلایاجائے۔(16)
کچھ رسومات ایسی ہیں جن کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں، غیر اقوام سے آئی ہوئی رسومات ہیں، شادی بياه كے موقع پر ان سے بچنا اور اجتناب كرنا لازم ہے:
1. پھوپھا کا دلہن کو ہار پہنانا اور پیسے دینا۔ 2. دودھ پلائی۔ 3. بھابھی کی طرف سے کاجل لگائی اور پیسے دینا۔4. دروازہ رکائی۔ 5. جوتا چھپائی۔6. رخصتی کے وقت دلہن کے سر پر قرآن رکھنا۔
شادی کے موقع پر مرد و زن کی مخلوط مجالس، موسیقی بجانا، تصاویر بنانا اور ویڈیو ریکارڈنگ کرنا شادی بیاہ کے موقع پر بہت عام ہو گیا ہے، ان میں سے ہر ایک بڑا گناہ ہے، ان سے اجتناب کرنا نہایت ضروری ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مسجد میں نکاح ہو، نکاح کے بعد چھوارے وغیرہ تقسیم ہوں، تکلفات سے خالی رخصتی ہو اور وسعت کے مطابق ولیمہ ہو، اس کے علاوہ غیر اقوام کی جاری کی ہوئی رسموں سے، بے جا تکلفات سے، اللہ کی نافرمانی والے کاموں سے، مخلوط مجالس سے، گانا بجانے سے، تصویر کشی سے اور دھکاوے کی چیزوں سے احتراز کیا جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ایسی بے تکلف شادی میں ہی برکت ہوا کرتی ہے۔
1. مشکاۃالمصابیح میں ہے:
"وعن المغيرة بن شعبة قال: خطبت امرأة فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: «هل نظرت إليها؟» قلت: لا، قال: «فانظر إليها فإنه أحرى أن يؤدم بينكما». رواه أحمد والترمذي والنسائي وابن ماجه والدارمي".
(کتاب النکاح ، باب النظر إلی المخطوبة ، الفصل الثاني ، جلد : 2 ، صفحه : 932 ، رقم : 3107 ، طبع : المكتب الإسلامي)
ترجمہ:"حضرت مغیرہ بن شعبہ-رضی اللہ عنہ- سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے منگنی کا ارادہ کیا، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ نے اس عورت کو دیکھا؟ میں نے کہا: نہیں، فرمایا: اس کی طرف دیکھ لو؛یہ دیکھنا تمہارے درمیان محبت کا سبب بنے گا۔"
فتاوی شامی میں ہے:
"ولو أراد أن یتزوج امرأة فلا بأس أن ینظر إلیها، وإن خاف أن یشتهیها".
(کتاب الحظر والإباحة ، باب الاستبراء ، جلد : 6 ، صفحه : 370 ، طبع : سعید)
2. فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"ولا يحل له أن يمس وجهها، ولا كفها، وإن كان يأمن الشهوة وهذا إذا كانت شابة تشتهى."
(کتاب الکراهية ، الباب الثامن ، جلد : 5 ، صفحه : 329 ، طبع : دار الفکر)
3. مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"وعن عائشة قالت: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: أعلنوا هذا النكاح) أي: بالبينة فالأمر للوجوب أو بالإظهار والاشتهار فالأمر للاستحباب كما في قوله (واجعلوه في المساجد) وهو إما لأنه أدعى إلى الإعلان أو لحصول بركة المكان وينبغي أن يراعى فيه أيضا فضيلة الزمان ليكون نورا على نور وسرورا على سرور، قال ابن الهمام: " يستحب مباشرة عقد النكاح في المسجد لكونه عبادة وكونه في يوم الجمعة " اه، وهو إما تفاؤلا للاجتماع أو توقع زيادة الثواب أو لأنه يحصل به كمال الإعلان."
(كتاب النكاح ، باب إعلان النكاح ، جلد : 5 ، صفحه : 2072 ، ط : دار الفكر)
4. اعلاء السنن میں ہے:
"قالت أم حبیبة زوج النبی صلي الله عليه وسلم: ... فقال: اجلسوا فإنّ سنة الأنبیاء علیهم الصلاة و السلام إذا تزوجوا أن یؤکل الطعام علی التزویج، فدعا بطعام فأکلوا ثم تفرقوا ...
قلت : و لیس ذلك بولیمة بل هو طعا م التزویج، و یلتحق به ما تعارفه المسلمون من نثر التمر ونحوہ في مجلس النكاح. فقد روى البیهقي عن معاذ بن جبل بسند فیه ضعف و انقطاع: أن النبي صلي الله عليه وسلم حضر في املاك (أي نكاح) فأتي بطباق علیھا جوز و لوز و تمر، فنثرت فقبضنا أیدینا، فقال: ما بالكم لاتأخذون؟ فقالوا: لأنك نھیت عن النھبى! فقال: مما نھیتكم عن نھبى العساكر خذوا على اسم الله فجاذبنا وجاذبناہ."
(كتاب النكاح ، جلد : 11 ، صفحه : 12 ، طبع : ادارة القران والعلوم الاسلاميه كراتشي)
5. المعجم الکبیر للطبرانی میں ہے:
"عن أنس بن مالك قال: جاء أبو بكر إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقعد بين يديه، فقال: يا رسول الله قد علمت مناصحتي وقدمي في الإسلام، وإني وإني، قال: «وما ذلك؟» قال: تزوجني فاطمة، فسكت عنه أو قال: فأعرض عنه، فرجع أبو بكر إلى عمر فقال: هلكت وأهلكت قال: وما ذلك؟ قال: خطبت فاطمة إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأعرض عني، فقال: مكانك حتى آتي النبي صلى الله عليه وسلم فأطلب مثل الذي طلبت، فأتى عمر النبي صلى الله عليه وسلم فقعد بين يديه، فقال: يا رسول الله قد علمت مناصحتي وقدمي في الإسلام، وإني وإني، قال: «وما ذاك؟» قال: تزوجني فاطمة، فأعرض عنه فرجع عمر إلى أبي بكر، فقال: إنه ينتظر أمر الله فيها، انطلق بنا إلى علي حتى نأمره أن يطلب مثل الذي طلبنا، قال علي: فأتياني وأنا في سبيل، فقالا: بنت عمك تخطب، فنبهاني لأمر، فقمت أجر ردائي طرف على عاتقي، وطرف آخر في الأرض حتى أتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقعدت بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله قد علمت قدمي في الإسلام ومناصحتي، وإني وإني، قال: «وما ذاك يا علي؟» قلت: تزوجني فاطمة، قال: «وما عندك» ، قلت: فرسي وبدني، يعني درعي، قال: «أما فرسك، فلا بد لك منه، وأما درعك فبعها» ، فبعتها بأربع مائة وثمانين فأتيت بها النبي صلى الله عليه وسلم فوضعتها في حجره، فقبض منها قبضة، فقال: " يا بلال، ابغنا بها طيبا، ومرهم أن يجهزوها، فجعل لها سريرا مشرطا بالشريط، ووسادة من أدم، حشوها ليف، وملأ البيت كثيبا، يعني رملا، وقال: «إذا أتتك فلا تحدث شيئا حتى آتيك» فجاءت مع أم أيمن فقعدت في جانب البيت، وأنا في جانب، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: «ههنا أخي» ، فقالت أم أيمن: أخوك قد زوجته بنتك، فدخل النبي صلى الله عليه وسلم فقال لفاطمة: «ائتيني بماء» ، فقامت إلى قعب في البيت فجعلت فيه ماء فأتته به فمج فيه ثم قال لها: «قومي» فنضح بين ثدييها وعلى رأسها ثم قال: «اللهم أعيذها بك وذريتها من الشيطان الرجيم» ، ثم قال لها: «أدبري» ، فأدبرت فنضح بين كتفيها ثم قال: «اللهم إني أعيذها بك وذريتها من الشيطان الرجيم» ، ثم قال: «ائتيني بماء» فعملت الذي يريده، فملأت القعب ماء فأتيته به فأخذ منه بفيه، ثم مجه فيه، ثم صب على رأسي وبين يدي ثم قال: «اللهم إني أعيذه وذريته من الشيطان الرجيم» ثم قال: «ادخل على أهلك بسم الله والبركة."
(مسند النساء ، ذكر تزويج فاطمة رضي الله عنها ، جلد : 22 ، صفحه : 408 ، طبع : مكتبة ابن تيمية - القاهرة)
6. صحیح البخاری میں ہے:
"عن عائشة رضي الله عنها: " تزوجني النبي صلى الله عليه وسلم، فأتتني أمي فأدخلتني الدار، فإذا نسوة من الأنصار في البيت، فقلن : على الخير والبركة ، وعلى خير طائر."
(کتاب النکاح ، باب الدعاء للنساء اللاتي يهدين العروس وللعروس ، جلد : 7 ، صفحه : 21 ، طبع : السلطانیة)
7. الاستیعاب في معرفة الأصحاب میں ہے:
"وروی عن سعید عن قتادة أن النجاشي زوج النبي صلي الله عليه وسلم أم حبیبة بنت أبي سفیان رضي الله عنهما بأرض الحبشة وأصدق عنه بمائتي دینار ... (إلی أن قال) زوجها إیاه النجاشي وجهزها إلیه وأصدقها أربعمائة دینار، و أولم علیها عثمان بن عفان لحماً وثریداً وبعث إلیها رسول الله صلي الله عليه وسلم شرحبیل ابن حسنة فجاء بها ..." الخ
(باب الراء ، رملة بنت ابي سفيان رضي الله عنهما، جلد : 4 ، صفحه : 1844 ، طبع : دار الجيل)
8. صحیح ابن حبان میں ہے:
"عن عقبة بن عامر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "خير النكاح أيسره."
(النوع الحادي عشر، ذكر الإباحة للإمام أن يزوج المرأة التي لا يكون لها ولي ، جلد : 6 ، صفحه : 481 ، طبع : دار ابن حزم)
9. صحیح بخاری میں ہے:
"عن أبي شريح الكعبي: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه."
(کتاب الادب ، باب اکرام الضیف ، جلد : 8 ، صفحه : 32 ، السلطانيه)
10. امداد الاحکام میں ہے:
"باپ کا اپنی لڑکی کو نکاح کے وقت جہیز دینا سنتِ نبویہ سے ثابت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا کو شادی کے وقت جہیز دیا ہے۔"
(کتاب النکاح، جلد : 2، صفحہ: 371، طبع: مکتبہ دار العلوم، کراچی)
11. معارف الحدیث میں ہے:
"ہمارے ملک میں اکثر اہلِ علم اس حدیث کا مطلب یہی سمجھتے اور بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ چیزیں (چادر، مشکیزہ، تکیہ) اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے موقع پر جہیز کے طور پر دی تھیں، لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس زمانہ مین عرب میں نکاح شادی کے موقع پر لڑکی کو جہیز کے طور پر کچھ سامان دینے کا رواج بلکہ تصور بھی نہیں تھا اور جہیز کا لفظ بھی استعمال نہیں ہوتا تھا، اس زمانہ کی شادیوں کے سلسلے میں کہیں اس کا ذکر نہیں آتا، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری صاحبزادیوں کے نکاح کے سلسلے میں بھی کہیں کسی قسم کے جہیز کا ذکر نہیں آیا، حدیث کے لفظ جھزکے معنی اصطلاحی جہیز دینے کے نہیں، بلکہ ضرورت کا انتظام اور بندوبست کرنے کے ہیں، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے حضور نے ان چیزوں کا انتظام حضرت علی رضی اللہ کے سرپرست ہونے کی حیثیت سے ان ہی کی طرف سے اور ان ہی کے پیسوں سے کیا تھا؛ کیوں کہ یہ ضروری چیزیں ان کے گھر میں نہیں تھیں، روایات سے اس کی پوری تفصیل معلوم ہوجاتی ہے، بہر حال یہ اصطلاحی جہیز نہیں تھا۔"
(نکاح و ازدواج اور اس کے تعلقات، جلد: 7، صفحہ : 461، طبع : دار الاشاعت)
12. سنن النسائی میں ہے:
"عن علي، رضي الله عنه قال: جهز رسول الله صلى الله عليه وسلم فاطمة في خميل وقربة ووسادة حشوها إذخر."
(کتاب النکاح، جهاز الرجل ابنته ، جلد : 6 ، صفحه : 135، طبع : مکتب المطبوعات الاسلامیة)
13. مسند احمد میں ہے:
"عن علي: "أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما زوجه فاطمة بعث معه بخميلة ووسادة من أدم حشوها ليف، ورحيين وسقاء وجرتين."
(مسند علی بن ابی طالب رضی اللہ عنه ، جلد : 2 ، صفحه : 191 ، طبع : مؤسسة الرسالة)
14. مواہبِ لدنیہ میں ہے:
"عن أنس قال: جاء أبو بكر ثم عمر يخطبان فاطمة إلى النبي صلى الله عليه وسلم فسكت ولم يرجع إليهما شيئا فانطلقا إلى علي رضي الله عنه يأمرانه بطلب ذلك. قال علي: فنبهاني لأمر، فقمت أجر ردائي حتى أتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقلت: تزوجني فاطمة؟ قال: "وعندك شيء"؟ فقلت: فرسي وبدني، قال: "أما فرسك فلا بد لك منها وأما بدنك فبعها"، فبعتها بأربعمائة وثمانين، فجئته بها، فوضعتها في حجره، فقبض منها قبضة فقال: "أي بلال: ابتع بها لنا طيبا وأمرهم أن يجهزوها، فجعل لها سرير مشروط، ووسادة من أدم حشوها ليف."
(کتاب المغازی ، جلد : 2 ، صفحه : 360 ، طبع : دار الکتب العلمیة)
15. عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں ہے:
"قوله: (أولم) احتج به الظاهرية وقالوا فرض على كل من تزوج أن يولم بما قل أو كثر، وبه قال أبو سليمان، وقال القرطبي: وهو أحد قولي الشافعي ومشهور مذهب مالك، وقال ابن التين وهو مذهب أحمد وفيه نظر لأن ابن قدامة قال في المغني: ويستحب لمن تزوج أن يولم ولو بشاة لا خلاف بين أهل العلم في أن الوليمة في العرس سنة مشروعة، وليست بواجبة في قول أكثر أهل العلم، وقال بعض أصحاب الشافعي: هي واجبة لأنه صلى الله عليه وسلم أمر بها عبد الرحمن بن عوف، رضي الله تعالى عنه. وقال ابن قدامة: هو طعام سرور حادث فأشبه سائر الأطعمة، والخبر على الإستحباب لقوله: (ولو بشاة) ولا خلاف في أنها لا تجب."
(باب الصفرة للمتزوج ، جلد : 20 ، صفحه : 144 ، طبع : دارالفكر)
16. شرح مختصر الطحاوی للجصاص میں ہے:
"عن أبي هريرة رضي الله عنه أنه كان يقول: "شر الطعام طعام الوليمة، يدعى إليها الأغنياء، ويترك المساكين، ومن لم يأت الدعوة فقد عصى الله ورسوله."
(كتاب النكاح، باب الوليمة وعشرة النساء، جلد : 4 ، صفحه : 436 ، طبع : دار البشائر الإسلامية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144602101566
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن