شادی ہال والے میوزیکل اشیاء /گانے بجانے کے آلات نہیں رکھیں، لیکن شادی والے خود وہ اشیاء ساتھ لے آئیں اور وہ شادی ہال میں بجائیں ،اس صورت میں شادی ہال کی کمائی کیسی ہے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر شادی ہال والوں کو معلوم ہے کہ کرایہ پر لینے والے حرام امور کا ارتکاب کریں گے تو اس صورت میں ہال ایسے لوگوں کو کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے،گناہ کے کام میں تعاون ہونے کی وجہ سے ایسی کمائی مکروہ ہوگی،اور اگر یہ بات ان کے علم میں نہیں ہےیا ہال والوں نے صراحت کے ساتھ ان امور سے منع کیا ہو لیکن پھر بھی انہوں نے ان امور کا ارتکاب کیا ہےتو اس صورت میں ہال کی آمدنی جائز ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) جاز تعمير كنيسة و (حمل خمر ذمي) بنفسه أو دابته (بأجر) لا عصرها لقيام المعصية بعينه.
(و) جاز (إجارة بيت بسواد الكوفة) أي قراها (لا بغيرها على الأصح) وأما الأمصار وقرى غير الكوفة فلا يمكنون لظهور شعار الإسلام فيها وخص سواد الكوفة، لأن غالب أهلها أهل الذمة (ليتخذ بيت نار أو كنيسة أو بيعة أو يباع فيه الخمر) وقالا لا ينبغي ذلك لأنه إعانة على المعصية وبه قالت الثلاثة زيلعي.
(قوله وجاز تعمير كنيسة) قال في الخانية: ولو آجر نفسه ليعمل في الكنيسة ويعمرها لا بأس به لأنه لا معصية في عين العمل (قوله وحمل خمر ذمي) قال الزيلعي: وهذا عنده وقالا هو مكروه " لأنه - عليه الصلاة والسلام - «لعن في الخمر عشرة وعد منها حاملها» وله أن الإجارة على الحمل وهو ليس بمعصية، ولا سبب لها وإنما تحصل المعصية بفعل فاعل مختار، وليس الشرب من ضرورات الحمل، لأن حملها قد يكون للإراقة أو للتخليل، فصار كما إذا استأجره لعصر العنب أو قطعه والحديث محمول على الحمل المقرون بقصد المعصية اهـ زاد في النهاية وهذا قياس وقولهما استحسان، ثم قال الزيلعي: وعلى هذا الخلاف لو آجره دابة لينقل عليها الخمر أو آجره نفسه ليرعى له الخنازير يطيب له الأجر عنده وعندهما يكره."
(کتاب الحظر والاباحۃ،ج6،ص392،ط؛سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603102778
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن