بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی ہال کوکرایہ پردیناکیساہے؟


سوال

اگر کوئی شخص کسی بینکویٹ کا مالک ہے اور لوگ اپنی تقریبات وغیرہ کے لیے اسکا بینکویٹ کرایہ پر لیتے ہیں اور پھر خلاف شرع کام کرتے ہیں مثال کے طور پر ناچ گانا، مرد و زن کا اختلاط وغیرہ... تو کیا بینکویٹ کا مالک گناہ گار ہوگا؟... کیا بینکویٹ کے مالک کی کمائی جائز ہوگی؟

جواب

صورت  مسئولہ میں اگربینکویٹ کا مالک ہال کرایہ پرلینےوالوں کےساتھ کسی بھی صورت میں گناہ کےکام پرمددکرےمثلاًمیوزک کے آلات فراہم کرے،یاویڈیوں تصاویرکےلیے آلات فراہم کرے،یاہال کواس طورپرسجائے کہ اس میں مردوزن اکٹھےہوجائیں اورمخلوط ماحول بنے،اسی طرح اگرہال کےمالک کوکرایہ پہ لینےوالوں کےبارےمیں غالب گمان یہ ہوکہ  وہ لوگ ہال میں خرافات کریں گے، ناجائز امورکاارتکاب کریں گے،پھربھی مالک ان کوہال کرایہ پردےگا،ان تمام صورتوں میں گناہ کےکام پرتعاون کرنےکی وجہ سےہال کامالک بھی گناہ گارہوگا۔

"وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْـمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۖ اِنَّ اللّـٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِٗ"(المائدة،آية:2)

ترجمہ:اورگناہ اورزیادتی میں ایک  دوسرےکی اعانت مت کرو،اوراللہ سےڈراکرو،بلاشبہ اللہ سخت سزادینےوالےہیں۔(بیان القرآن)۔

المحیط البرہانی میں ہے:

"وإذا استأجر الذمي من المسلم ‌دارا ليسكنها فلا بأس بذلك؛ لأن الإجارة وقعت على أمر مباح فجازت وإن شرب فيها الخمر أو عبد فيها الصليب أو أدخل فيها الخنازير، لم يلحق المسلم في ذلك شيء لأن المسلم لم يؤاجر لها إنما يؤاجر للسكنى، وكان بمنزلة ما لو أجر ‌دارا من ‌فاسق كان مباحا، وإن كان ‌يعصي فيها، ولو اتخذ فيها بيعة أو كنيسة أو بيت نار يمكن من ذلك إن كان في السواد.

قال شيخ الإسلام رحمه الله: وأراد بهذا إذا استأجرها الذمي ليسكنها، ثم أراد بعد ذلك أن يتخذ كنيسة أو بيعة فيها، فأما إذا استأجرها في الابتداء ليتخذها بيعة أو كنيسة لا يجوز."

(كتاب الإجارة،‌‌الفصل الخامس عشر: في بيان ما يجوز من الإجارات، وما لا يجوز،ج:7، ص:483، ط:دار الكتب العلمية)

درر الحکام  میں ہے:

"إذا ‌اجتمع ‌المباشر ‌والمتسبب أضيف الحكم إلى المباشر هذه القاعدة مأخوذة من الأشباه. ويفهم منها أنه إذا اجتمع المباشر أي عامل الشيء وفاعله بالذات مع المتسبب وهو الفاعل للسبب المفضي لوقوع ذلك الشيء ولم يكن السبب ما يؤدي إلى النتيجة السيئة إذا هو لم يتبع بفعل فاعل آخر، يضاف الحكم الذي يترتب على الفعل إلى الفاعل المباشر دون المتسبب وبعبارة أخصر يقدم المباشر في الضمان عن المتسبب.

تعريف المباشر - هو الذي يحصل التلف من فعله دون أن يتخلل بينه وبين التلف فعل فاعل آخر."

([ ‌‌(المادة 90) ‌إذا ‌اجتمع ‌المباشر ‌والمتسبب أضيف الحكم إلى المباشر]،ج:1، ص:91، ط:دار الجيل)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144511102568

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں