گزشتہ دنوں میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے ، جن کی شرعی حیثیت معلوم کرنا ہم ضروری سمجھتے ہیں ، لہذا ان کی شرعی حیثیٹ بتاکر راہ رنمائی فرمائیں :
گزشتہ اگست کے مہینہ میں میری پوتی کی شادی ہوئی ، اس شادی میں میرے چار بیٹوں میں سے ایک بیٹے نے شرکت نہیں کی ، شرکت نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پیر صاحب نے کسی بھی شادی ہال میں ہونے والی شادی میں شرکت کرنے سے منع فرمایا ہے۔
واقعہ نمبر : ۱
میں نے ایک مکان جس کو شادی ہال کہا جاتا ہے کرایہ پر لیا ، میری پوتی کی شادی تھی ، بارات میں کوئی نہیں آیا ، علاوہ لڑکے کی ماں ، باپ ، بھائی ، بہن اور ان کے چھوٹے بچے ، یعنی کوئی دس ، بارہ لوگ دو ، تین گاڑیوں میں بیٹھ کر کراچی سے آگئے ۔ ہاں البتہ میرے مہمان زیادہ تھے، کوئی ڈھائی ، تین سو لوگ ، میرے لیے ممکن نہیں تھا کہ اتنے لوگوں کی اپنے چھوٹے سے گھر میں میزبانی کی جا سکے ، اس لیے مین نے شادی ہال بک کرایا ، ہا ل میں لوہے کی پارٹیشن کے ساتھ عورتوں کے طعام کا بندوبست تھا ، گانا بجانا بالکل ممنوع تھا ، عورتوں کے آنے اور جانے کا دروازہ بھی علیحدہ تھا ، كوئی غیر شرعی کام نہیں ہوا ، پھر بھی میرے ایک بیٹے نے یہ کہہ کر شرکت نہیں کہ میرے پیر نے ہال میں شرکت کر نے سے منع کیا ہے۔
واقعہ نمبر : ۲
ولیمہ دولہے کی طرف سے کراچی میں ہوا ، وہ بھی ایک ہال کرائے پر لے کر کیا ، ان کے دوست ، احباب اور کچھ ہمارے رشتہ دار شریک ہوئے ، وہاں بھی عورتوں کے لیے علیحدہ انتظام تھا ، چونکہ دولہا ، خود ماشا الله حافظ قرآن اور عالم دین ہے، لہذا تقریباً دس سے پندرہ علماء بھی ولیمہ میں شریک ہوئے ، لیکن میرا وہ بیٹا شریک نہیں ہوا ، اس لیے کہ ان کے پیر صاحب نے ہال میں شرکت سے منع کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسئلہ شرعی اور غیر شرعی ہونے کا نہیں ہے، بلکہ مسئلہ ہال کا ہے۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ :
اس طرح سے کسی ہال میں احکام شریعت کی مکمل رعایت کے ساتھ شادی کی تقریب منعقد کرنا ناجائز یا جائز ہے ؟
اگر ناجائز و حرام نہیں ہے تو شرکت نہ کر کے میرے بیٹے نے قطع رحمی کا ارتکاب کیا ہے؟ شریعت مطہرہ کی روشنی میں اسے اس کی تلافی کس طرح کرنی چاہیے؟ میرے بیٹے کے اس عمل سے میرے خاندان میں قطع رحمی کا آغاز ہو گیا ہے، میرے کان میں یہ آواز آنا شروع ہوگئی ہے کہ ہم بھی ان کے بچوں کی شادیوں میں شریک نہیں ہوں گے۔
آپ سے درخواست ہے کہ اس معاملہ کو شریعت کے مطابق حل کرنے کے لیے حوالہ کے ساتھ راہ نمائی فرمائیں ۔
کسی تقریب میں شرکت کے جائز و ناجائز ہونے کا تعلق اس تقریب کے ناجائز امور سے پاک ہونے نہ ہونے پر ہے، لہذا اگر کسی تقریب میں کوئی ناجائز کام مثلا گانا بجانا، تصویر سازی، ویڈیو گرافی، بے پردگی، مردوں اور عورتوں کامخلوط اجتماع ہو تو ایسی تقریب میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے اگرچہ یہ تقریب گھر کی چار دیواری میں ہی کیوں نہ ہو، اور اگر کسی تقریب میں یہ سب ناجائز کام نہ ہوں تو اس میں شرکت کرنا جائز ہے اگرچہ وہ تقریب ہال میں کیوں نہ ہو۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعی مذکورہ ہال میں شادی کی تقریب کے دوران کسی قسم کے ناجائز کام کا ارتکا ب نہیں کیا گیا تو آپ کے بیٹے کامحض ہال میں شادی کی تقریب ہونے کو ناجائز سمجھنا اور اس میں شرکت سے گریز کرنا درست نہیں تھا، ایسا کرنے سے وہ شرعی عذر کے بغیر ولیمہ کی دعوت قبول نہ کرنے اور بھتیجے کی خوشی میں شریک نہ ہوکر قطع رحمی کے گناہ کا ارتکاب کرکے دہرے گناہ کا مرتکب ہوا ہے، اب اس کی تلافی یہ ہے کہ اولاً وہ اللہ تعالی کے حضور صدقِ دل سے توبہ و استغفار کرے اور اس سے جن قریبی لوگوں کی دل آزاری ہوئی ہے ان سب سے معافی مانگے اور اگر ہوسکے تو ان کی دل جوئی کےلیے ہدایا یا دعوت کا انتظام بھی کرے ۔
جہاں تک پیرصاحب کے منع کرنے کی بات ہے تو اگرپیر صاحب کسی بھی صورت شادی ہال میں جانے سےمنع کرتے ہوں اگرچہ وہاں ناجائز امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا ہو تو ان کا یہ منع کرنا شرعی حکم نہیں ہے اور اگر وہاں ہونے والے ناجائز کاموں کی وجہ سے منع کرتے ہوں تو ان کا منع کرنا عین شریعت کے مطابق ہے۔بہرحال اس معاملہ میں افراط و تفریط سے بچنا چاہیے اور شرعی احکامات کو صحیح اور ٹھیک ٹھیک سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(دعي إلى وليمة وثمة لعب أو غناء قعد وأكل) لو المنكر في المنزل، فلو على المائدة لا ينبغي أن يقعد بل يخرج معرضا لقوله تعالى: - {فلا تقعد بعد الذكرى مع القوم الظالمين} [الأنعام: 68]- (فإن قدر على المنع فعل وإلا) يقدر (صبر إن لم يكن ممن يقتدى به فإن كان) مقتدى (ولم يقدر على المنع خرج ولم يقعد) لأن فيه شين الدين والمحكي عن الإمام كان قبل أن يصير مقتدى به (وإن علم أولا) باللعب (لا يحضر أصلا) سواء كان ممن يقتدى به أو لا لأن حق الدعوة إنما يلزمه بعد الحضور لا قبله ابن كمال."[وفي رد المحتار:]"(قوله وإن علم أولا) أفاد أن ما مر فيما إذا لم يعلم قبل حضوره (قوله لا يحضر أصلا) إلا إذا علم أنهم يتركون ذلك احتراما له فعليه أن يذهب إتقاني."
(كتاب الحظر والإباحة، ج: 6، ص: 348، ط: سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"من دعي إلى وليمة فوجد ثمة لعبا أو غناء فلا بأس أن يقعد ويأكل، فإن قدر على المنع يمنعهم، وإن لم يقدر يصبر وهذا إذا لم يكن مقتدى به أما إذا كان، ولم يقدر على منعهم، فإنه يخرج، ولا يقعد، ولو كان ذلك على المائدة لا ينبغي أن يقعد، وإن لم يكن مقتدى به وهذا كله بعد الحضور، وأما إذا علم قبل الحضور فلا يحضر؛ لأنه لا يلزمه حق الدعوة بخلاف ما إذا هجم عليه؛ لأنه قد لزمه، كذا في السراج الوهاج وإن علم المقتدى به بذلك قبل الدخول، وهو محترم يعلم أنه لو دخل يتركون ذلك فعليه أن يدخل وإلا لم يدخل، كذا في التمرتاشي."
(كتاب الكراهية، الباب الثاني عشر في الهدايا والضيافات، ج:5، ص: 343،ط: دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله دعي إلى وليمة) وهي طعام العرس وقيل الوليمة اسم لكل طعام. وفي الهندية عن التمرتاشي: اختلف في إجابة الدعوى قال بعضهم: واجبة لا يسع تركها وقال العامة: هي سنة، والأفضل أن يجيب إذا كانت وليمة وإلا فهو مخير والإجابة أفضل، لأن فيها إدخال السرور في قلب المؤمن وإذا أجاب فعل ما عليه أكل أو لا، والأفضل أن يأكل لو غير صائم..."[وقال بعده:]" وفي الاختيار: وليمة العرس سنة قديمة إن لم يجبها أثم لقوله - صلى الله عليه وسلم - «من لم يجب الدعوة فقد عصى الله ورسوله، فإن كان صائما أجاب ودعا، وإن لم يكن صائما أكل ودعا، وإن لم يأكل ولم يجب أثم وجفا» لأنه استهزاء بالمضيف وقال - عليه الصلاة والسلام - «لو دعيت إلى كراع لأجبت» اهـ. ومقتضاه أنها سنة مؤكدة، بخلاف غيرها وصرح شراح الهداية بأنها قريبة من الواجب. وفي التتارخانية عن الينابيع: لو دعي إلى دعوة فالواجب الإجابة إن لم يكن هناك معصية ولا بدعة والامتناع أسلم في زماننا إلا إذا علم يقينا أن لا بدعة ولا معصية اهـ والظاهر حمله على غير الوليمة لما مر ويأتي تأمل."
(كتاب الحظر والإباحة، ج: 6، ص: 348، ط: سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"واختلف في إجابة الدعوة قال بعضهم واجبة لا يسع تركها وقالت العامة هي سنة والأفضل أن يجيب إذا كانت وليمة وإلا فهو مخير والإجابة أفضل؛ لأن فيها إدخال السرور في قلب المؤمن، كذا في التمرتاشي. ولو دعي إلى دعوة فالواجب أن يجيبه إلى ذلك، وإنما يجب عليه أن يجيبه إذا لم يكن هناك معصية، ولا بدعة، وإن لم يجبه كان عاصيا والامتناع أسلم في زماننا إلا إذا علم يقينا بأنه ليس فيها بدعة، ولا معصية كذا في الينابيع."
(كتاب الكراهية، الباب الثاني عشر في الهدايا و الضيافات، ج: 5، ص: 343، ط: دار الفكر)
تفسیر کبیر للرازی میں ہے:
"وعن عبد الرحمن بن عوف: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «يقول الله تعالى أنا الرحمن وهي الرحم اشتققت اسمها من اسمي فمن وصلها وصلته ومن قطعها قطعته» وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «ما من شيء أطيع الله فيه أعجل ثوابا من صلة الرحم وما من عمل عصي الله به أعجل عقوبة من البغي واليمين الفاجرة» وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الصدقة وصلة الرحم يزيد الله بهما في العمر ويدفع بهما ميتة السوء ويدفع الله بهما المحذور والمكروه» و قال عليه الصلاة والسلام: «أفضل الصدقة على ذي الرحم الكاشح» قيل الكاشح العدو، فثبت بدلالة الكتاب والسنة وجوب صلة الرحم واستحقاق الثواب بها..."
( ج: 9، ص: 481، ط: دار إحياء التراث العربي )
عمدۃ القارئ شرح صحیح البخاری میں ہے:
"ولا خلاف أن صلة الرحم واجبة في الجملة وقطعها معصية كبيرة، والأحاديث في الباب تشهد لذلك، ولكن للصلة، درجات بعضها أرفع من بعض وأدناها ترك المهاجرة وصلتها بالكلام ولو بالسلام، ويختلف ذلك باختلاف القدرة والحاجة. فمنها: واجب ومنها مستحب ولو قصر عما قدر عليه فينبغي أن يسمى واصلا. واختلف في الرحم التي يجب صلتها. فقيل: هي كل رحم محرم بحيث لو كان أحدهما ذكرا والآخر أنثى حرمت مناكحتها، فعلى هذا لا يجب في بني الأغمام وبني الأخوال لجواز الجمع في النكاح دون المرأة وأختها وعمتها. وقيل: بل هذا في كل ذي رحم ممن ينطلق عليه ذلك من ذوي الأرحام في المواريث محرما كان أو غيره."
(كتاب التفسير، سورة محمد، ج: 19، ص: 173، ط: دار إحياء التراث العربي)
فقط و اللہ أعلم
فتوی نمبر : 144605101237
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن