بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی نہ کرنے کا حکم


سوال

شادی نہ کر نا اسلام میں کیسا ہے؟

جواب

شادی کرنا اور ازدواجی زندگی گزارنا مسنون عمل ہے، مختلف احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دی ہے، جیسا کہ درجِ ذیل روایت میں ہے:

 "أخبرنا حميد بن أبي حميد الطويل، أنه سمع أنس بن مالك رضي الله عنه، يقول: جاء ثلاثة رهط إلى بيوت أزواج النبي صلى الله عليه وسلم، يسألون عن عبادة النبي صلى الله عليه وسلم، فلما أخبروا كأنهم تقالوها، فقالوا: وأين نحن من النبي صلى الله عليه وسلم؟ قد غفر له ما تقدم من ذنبه وما تأخر، قال أحدهم: أما أنا فإني أصلي الليل أبدا، وقال آخر: أنا أصوم الدهر ولا أفطر، وقال آخر: أنا أعتزل النساء فلا أتزوج أبدا، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم إليهم، فقال: «أنتم الذين قلتم كذا وكذا، أما والله إني لأخشاكم لله وأتقاكم له، لكني أصوم وأفطر، وأصلي وأرقد، وأتزوج النساء، فمن رغب عن سنتي فليس مني»".

(صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح، رقم الحدیث:5063، ج:7، ص:2، ط:دارطوق النجاۃ)

ترجمہ: ’’ہم کو حمید بن ابی حمید طویل نے خبر دی، انہوں نے انس بن مالک سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ تین حضرات یعنی علی بن ابی طالب، عبداللہ بن عمرو بن العاص اور عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے، جب انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بتایا گیا تو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا کہ ہمارا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا مقابلہ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کر دی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں؟ سن لو! اللہ تعالیٰ کی قسم! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں۔ نماز پڑھتا ہوں (رات میں) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں، پس جس نے میرے طریقے سے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔‘‘

لہذا جس شخص کے پاس شادی کرنے استطاعت ہےاوروہ  بیوی کے تمام حقوق ادا کرنے پر قادر بھی ہے، جبکہ اس کی کوئی ایسی مصروفیت  بھی نہیں ہے جو ازدواجی زندگی کے لئے مانع ہویا اس کی وجہ سے معذور ہو، ایسے شخص کا شادی نہ کرنا مسنون عمل سے محروم ہونا ہے۔

شرح سنن ابن ماجه للسيوطي میں ہے:

"فمن لم يعمل بسنتي أي اعرض عن طريقتي استهانة وزهدا فيها لا كسلا وتهاونا فليس مني أي من اشياعي كذا في المرقاة قال في الفتح المراد بالسنة الطريقة لا التي مقابل الفرض والرغبة عن الشيء الاعراض عنه الى غيره والمراد من ترك طريقتي وأخذ طريقة غيري فليس مني ولمح بذلك الى الطريقة الرهبانية فإنهم الذين ابتدعوا التشديد كما وصفهم الله تعالى وقد عابهم بأنهم ما دعوا بما التزموها وطريقة النبي صلى الله عليه وسلم الحنيفية السمحاء فيفطر ليتقوى على الصيام وينام ليتقوى على القيام ويتزوج لكسر الشهوة واعفاف النفس وقوله فليس مني ان كانت الرغبة عنه بضرب من التأويل يعذر صاحبه فيه فمعنى انه ليس مني أي ليس على طريقتي ولا يلزم ان يخرج وان كانت الرغبة اعراضا فمعنى ليس مني على ملتي لأن اعتقاد ذلك نوع من الكفر انتهى مع اختصار."

(باب صدقة الفطر، ص:133، ط:قدیمی کتب خانہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511101281

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں