ایک باپ اپنے بیٹے کی کفالت اس وقت تک کرتا رہتا ہے جب تک بیٹا کمانے کے قابل نہ ہو جائے، لیکن بیٹی کی شادی کر کے اور جہیز دے کر اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھتا ہے اور اس کی کفالت نہیں کرتا، حتی کہ باپ دونوں کا ہے اور جب تک باپ زندہ ہے دونوں اس کی میراث کے مالک ہیں، لیکن لڑکا اپنی مرضی سے باپ کے مال کو خرچ کرتا ہے، لیکن لڑکی نہیں کرتی، کیوں کہ اس کی شادی ہو گئی اور وہ کسی اور کے زیرِ کفالت ہوگئی، کیا لڑکی کی ذمہ داری والدین سے بالکل ختم ہو گئی یا وہ بھی اپنے والد کی آمدنی سے جس طرح بیٹا اپنی ضروریات کے لیے والد کی آمدنی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، بیٹی بھی اس کا حق رکھتی ہے کہ نہیں؟
والد کے ذمے بیٹے اور بیٹی کا نفقہ اور خرچہ واجب ہونے میں فرق یہ ہے کہ: بیٹے کانفقہ بالغ ہونے اور کمانے کی عمر تک پہنچنے تک والد کےذمہ ہے، مذکورہ عمر کے بعد لڑکے کا نفقہ خود اس پر ہے، اور اگر والد اس کو اپنے ساتھ رکھے اور اخراجات کرتا رہے تو اس کی طرف سے تبرع ہے، جب کہ بیٹی بالغ ہونے کے بعد بھی شادی تک والد ہی کی کفالت میں رہتی ہے اور شادی کے بعداس کا نفقہ شوہر پر واجب ہے، البتہ والد اس کو ہدیۃً کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے، اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ والد کے ذمے بیٹے کی بہ نسبت بیٹی کے نفقے کی ذمہ داری زیادہ ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر بالفرض بیٹی کو طلاق ہوجائے تو اس کا نفقہ اس کے والد پرواجب ہوجاتا ہے، نیز اگر بیٹا کمانے کی عمر تک پہنچ جائے تو والد اسے مزدوری پر لگا سکتا ہے، لیکن بیٹی کو محنت اور مزدوری پر نہیں بھیج سکتا۔
بیٹے یا بیٹی کسی کے لیے بھی والد کی اجازت کے بغیر والد کے مال کو خرچ کرنا جائز نہیں، لہذا یہ کہنا درست نہیں کہ لڑکا اپنی مرضی سے باپ کے مال کو خرچ کرتا ہے، لیکن لڑکی نہیں کرتی۔
الفتاوى الهندية (1/ 562):
"الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب، ولم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا، أو يؤاجرهم وينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، وأما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل، أو خدمة كذا في الخلاصة ثم في الذكور إذا سلمهم في عمل فاكتسبوا أموالا فالأب يأخذ كسبهم وينفق عليهم، وما فضل من نفقتهم يحفظ."
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144203200136
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن