بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

شاہد مشہود نام رکھنے کا حکم


سوال

میرا نام محمد شاہد ہے ،میں اپنے نام کے ساتھ مشہود کااضافہ کرتا ہوں ،لیکن کسی نے کہا کہ شاہد فاعل ہے اور مشہود مفعول ہے ،فاعل مفعول دونوں ایک ہی جگہ جمع نہیں ہو سکتے؛ کیوں کہ معنی درست نہیں ہے، برائے مہربانی میری رہنمائی فرمائیں کہ  شاہد کے ساتھ مشہود کا اضافہ کرنا کیسا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ایک بندے کا نام محمد شاہد مشہود رکھنا جائز ہے؛ کیوں پہلا نام محمد ہے جو کہ حضورﷺ کا ذاتی نام تھا اور آخری دونوں نام (شاہد، مشہود) حضورﷺ کے صفاتی نام هيں،نیز ایک ہی نام میں فاعل اور مفعول دونوں کے جمع ہونے سے معنی میں خرابی لازم نہیں آتی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قال المناوي : ... وتفضيل التسمية بهما محمول على من أراد التسمي بالعبودية؛ لأنهم كانوا يسمون عبد شمس وعبد الدار، فلا ينافي أن اسم محمد وأحمد أحب إلى الله تعالى من جميع الأسماء، فإنه لم يختر لنبيه إلا ما هو أحب إليه، هذا هو الصواب، ولا يجوز حمله على الإطلاق اهـ. وورد: «من ولد له مولود فسماه محمداً كان هو ومولوده في الجنة». رواه ابن عساكر عن أمامة رفعه قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب وإسناده حسن اهـ".

(کتاب الحظر والاباحة،  ج: 6، ص: 417، ط: سعید)

کتاب العین میں ہے:

"قيل في تفسيره: الشاهد هو النبي صلى الله عليه وعلى آله"

(‌‌باب الهاء والشين والدال معهما ش هـ د، د هـ ش، ش د هـ، هـ د ش مستعملات، ج: 3، ص: 398، ط: دار ومکتبة الهلال)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144601102666

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں