بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

شاہ زین اور شاہ میر نام رکھنا کیسا ہے؟


سوال

 مجھے ان دو ناموں کا معنی پوچھنا تھا:پہلا نام :”شاہ میر“ دوسرا نام:” شاہ زین“ اور یہ بھی پوچھنا تھا کہ: کیا بچوں کے یہ نام رکھے جا سکتے ہیں؟ اور یہ دونوں نام رکھنا کیسا ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ لفظ ”شاہ“ فارسی زبان کا لفظ ہے اوراس کا معنی ہے ”بادشاہ“، اسی طرح ”میر“ بھی فارسی زبان کا لفظ ہے ،جس کا معنی ہے سرادر ، لہذا” شاہ میر“ کا معنی ہے سرداروں کا بادشاہ، چناں چہ یہ نام رکھنا مناسب نہیں ہے ، اس لیے کہ اس نام میں مبالغہ پایا جاتاہے اور احادیثِ مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مبالغہ آمیز ناموں کو ناپسند فرمایاہے۔ 

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة قال:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (أخنى الأسماء يوم القيامة عند الله رجل تسمى ملك الأملاك)."

(صحيح البخاري،كتاب الأدب،باب: أبغض الأسماء إلى الله،2292/5، ط:دار ابن كثير، دار اليمامة)

ترجمہ:”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے بدترین نام اس کا ہو گا جو اپنا نام ملک الاملاک (شہنشاہ) رکھے۔“

  یعنی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین شخص وہ ہوگا جس کو ”شہنشاہ“ کا نام دیا جائے،  اور” شاہ میر “اس  سے ملتا جلتا نام ہے، لہذا اس نام  کے رکھنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

واضح رہے کہ لفظ ”شاہ“ فارسی زبان کا لفظ ہے اور ”زین“ عربی زبان کا،لہذا ”  شاہ زین“ کا معنی ہے ”زیب و زینت کا بادشاہ“،یہ نام رکھنا جائز ہے۔البتہ ایسا کوئی بھی نام جس میں  لفظ ”شاہ“ہو، وہ رکھنے سے احتراز کرنا بہتر ہے(جب کہ  جس کا نام رکھا جارہا ہے وہ سید بھی نہ ہو)،لہذا  نام رکھنے کے سلسلے سب بہتر صورت یہ ہے کہ اپنے بچوں کے نام   انبیاءِ کرام علیہم السلام یا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ناموں میں سے کسی نام پر نام رکھاجاۓ۔ 

فتح الباری شرح صحیح البخاری میں ہے:

"واستدل بهذا الحديث على تحريم التسمي بهذا الاسم لورود الوعيد الشديد ويلتحق به ما في معناه مثل خالق الخلق وأحكم الحاكمين وسلطان السلاطين وأمير الأمراء وقيل يلتحق به أيضا من تسمى بشيء من أسماء الله الخاصة به كالرحمن والقدوس والجبار."

(كتاب الأدب،قوله باب أبغض الأسماء إلى الله عز وجل، ١٠ / ٥٩٠، ط: دار المعرفة)

فرہنگ آصفیہ  میں ہے:

"شاہ: (فارسی)۔۔۔

1۔ اصل  جڑ۔

2۔ مولا، خداوند، صاحب، آقا، مالک۔( چوں کہ بادشاہ رعایا کی جڑ اور اس کا آقا  ہے،اس سبب سے بادشاہ کے معنی میں مستعمل ہوگیا) 

3۔ بادشاہ، سلطان، راجہ، ملک۔۔۔ الخ۔

(ش، 163/3۔ ط: مکتبہ حسن سہیل لمیٹڈ، لاہور)

القاموس الوحید میں ہے:

"زان، یزین ، زینا:

1۔سجانا، آراستہ کرنا۔

2۔زیب دینا

3۔ حسین و خوبصورت بنانا۔

(ز-ی، ص:732،ط: ادارہ اسلامیات) 

فیروز اللغات جامع میں ہے:

میر:افسر، سردار، سرکردہ،سالار، چودھری، مقدم۔ہادی، راہ نما، پیشوائے دین۔ سیدوں کا اعزای لقب، شہزادہ، تاش کا بادشاہ۔

(م، م-ے،1328، ط:فیروز سنز)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606100150

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں