شیئر مارکیٹ میں دو طرح خرید دوفروخت ہوتی ہے :(1)اسی دن خریدا اور ا سی دن بیچ دیا اس شکل میں، مشتری نے جو شیئر خریدا وہ دو دن کے بعد اس کے اکاؤنٹ میں جمع ہوگا( یعنی اس کی ملکیت میں آئیگا) لیکن شیئر کی خرید مکمل ہونے کے فوراً بعد سارا نفع یا نقصان مشتری کا ہوتا ہے اور بائع کا دخل ختم ہوجاتا ہے صرف ملکیت کا فرق ہوتا ہے ، لیکن جیسے ہی بائع نے وہ شیئر بیچا اس کی ملکیت ختم ہوجاتی ہے جو ٹیکنکلی طور پر دو دن کی بعد مشتری کی ملک میں آئیگی تو کیا اس صورت میں مشتری اس شیئر کو آگے اسی دن کسی کو بیچ سکتا ہے ؟ اس شکل میں اب سارے نفع نقصان کا مالک وہ مشتری ہوگا ، بائع کا دخل کلی طور پر ختم ہوجائے گا اور وہ ملکیت اوٹومیٹک دو دن کے بعد مشتری کی طرف منتقل ہوجائے گی۔
(2) شیئر کی چیز دو دن کے بعد مشتری کی ملکیت میں آنے کے بعد کیا وہ اس کو5یا10دن کے بعد بیچ سکتا ہے ؟
شیئرز /حصص کے جائز ہونے کی شرائط پائے جانے کے بعد اس کو خرید کر آگے فروخت کرنا اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک اس پر قبضہ نہ کرلیا جائے اور شیئرز میں قبضہ کا حکم ثابت ہونے کے لیے صرف زبانی وعدہ کافی نہیں ہے، نام رجسٹرڈ یا الاٹ ہونا ضروری ہے، اس سے پہلے صرف زبانی وعدہ یا غیر رجسٹرڈ شیئرز کی خرید وفروخت باقاعدہ طور پر ڈیلیوری ملنے سے پہلے ناجائز ہے۔
اور موجودہ زمانہ میں قبضہ کی صورت یہ ہے کہ جس کمپنی کے حصص بیچے گئے ہیں اس کمپنی کے ریکارڈ میں سی ڈی سی (C.D.C) کے ذریعے ان حصص کی منتقلی سائل (خریدار) کے نام ہوجائے، (جس میں تقریباً دو دن کا وقت لگتا ہے)؛ لہذا سی ڈی سی اکاؤنٹ میں خریدار کے نام پر شئیرز منتقل ہونے سے پہلے شیئرز کو آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہوگا۔
1:صورتِ مسئولہ میں جب تک شیئرز کے ذریعہ سے خریدی ہوئی چیز مشتری کےاکاؤنٹ ( ملکیت) میں منتقل نہ ہوئی ہو، تب تک مشتری کا اسے آگے فروخت کرنا اور اس پر نفع کمانا جائز نہیں ہے، البتہ اگر شیئرز کے ذریعہ سے خریدی ہوئی چیز مشتری کے اکاؤنٹ میں آجائے تب مشتری کے لئے اس چیز کو آگر بیچ کر اس پر نفع کمانا جائز ہوگا۔
2:مذکورہ صورت میں چونکہ شیئرز کے ذریعہ سے خریدی گئی چیز مشتری کی ملکیت میں آجاتی ہے، لہذا مشتری اسے آگے جتنے دنوں بعد بھی فروخت کرے، اس کے لئے ایسا کرنا جائز ہوگا۔
شیئرز کے حوالے سے مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتوی ملاحظہ کیجیے:
شئیرز کے کاروبار کے جواز کی شرائط اور قبضہ کا تحقق
البحر الرائق میں ہے:
"وأما شرائط المعقود عليه فأن يكون موجودا مالا متقوما مملوكا في نفسه وأن يكون ملك البائع فيما يبيعه لنفسه وأن يكون مقدور التسليم فلم ينعقد بيع المعدوم وما له خطر العدم.......وخرج بقولنا وأن يكون ملكا للبائع ما ليس كذلك فلم ينعقد بيع ما ليس بمملوك له وإن ملكه بعده."
(کتاب البیع، شرائط البیع، ج:5، ص:279، ط: دارالکتاب الاسلامي)
بدائع الصنائع میں ہے:
"(ومنها) القبض في بيع المشتري المنقول فلا يصح بيعه قبل القبض؛ لما روي أن النبي صلى الله عليه وسلم "نهى عن بيع ما لم يقبض"، والنهي يوجب فساد المنهي؛ ولأنه بيع فيه غرر الانفساخ بهلاك المعقود عليه؛ لأنه إذا هلك المعقود عليه قبل القبض يبطل البيع الأول فينفسخ الثاني؛ لأنه بناه على الأول، وقد نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع فيه غرر."
(کتاب البیوع،فصل في شرائط الصحة في البيوع، ج:5، ص:180، ط:دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512101747
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن