بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

شلوار پاجامہ ازار میں ٹخنوں کو ڈھانکنے کا حکم


سوال

 ہمارے علاقے میں ایک آدمی ہے، اس کی شلوارکے پائنچے ٹخنوں سے نیچے ہوتے ہیں،  اس بھائی کو میں نے بتایا کہ بھائی یہ آپ کے  پائنچے جو ہیں اس کو  ٹخنوں سے اوپر کرو، آپ کی نماز  اس سے مکروہ  ہوتی ہے تو اس بھائی نے یہ بولا کہ بھائی ، جس کی شلوار لمبی ہو وہ اگر پائنچے ٹخنوں سے اوپر کرے گا تو یہ بہت سخت گناہ ہے اور بہت سخت حدیث ہے اس کے خلاف  آپ مجھے برائے مہربانی آگاہ فرما دیجئے ،تاکہ میں اس کودلیل کےساتھ جواب  دے سکوں ،کہ کیا شلوار ٹخنوں سے اوپر نہ کرنے کی کوئی حدیث ہے،شلوار ٹخنوں سے اوپر کرنا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ  اگر کوئی  تکبر کی بناء پرپاجامہ ، ازار یا  شلوار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکاتاہے تویہ حرام اور گناہ کبیرہ ہےاور اگرکو ئی پاجامہ یا شلوار کو فیشن کے طور پر ٹخنوں سے لٹکاتا ہے تو یہ مکروہ تحریمی ہے،کیو ں کہ اس کا منشا  تکبر ہے ،اور اگر کبھی   بلاقصد وارادہ کے کپڑایا پاجامہ یا شلوار ٹخنوں سے نیچے ہوجائے تو اس پر گناہ نہیں ہوگا وہ شخص معذور ہے ، احادیث مبارکہ میں پاجامہ اور ازار    کو ٹخنوں سے اوپر کرنے کا حکم دیا ہے،اور بطور تکبر ٹخنوں سے نیچے رکھنے والوں کے لیےسخت وعیدات بیان کی ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے ازار  کو ٹخنوں سے اوپرنصف پنڈلی تک   رکھا کرتے تھے ، ابوبکرصدیق رضی اللہ نے نبی کریم ﷺ سے موضع ازار (ازار لٹکانے کی  جگہ )کے بارے میں پوچھا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا :آدھی پنڈلی ۔

لہذا  جو شخص  اس بات کا دعوی کر رہاہے کہ "جس کی شلوار لمبی ہو وہ اگر پائنچے ٹخنوں سے اوپر کرے گا تو یہ بہت سخت گناہ ہے اور بہت سخت حدیث ہے"یہ بات درست نہیں ہے ۔اس بندے کے پاس اگراپنے دعوی   پر کوئی دلیل  وثبوت ہےتو اس کوچاہیے کہ وہ  پیش کرے ،بصورت دیگر اس طر ح کی بات کرکے لوگوں کی غلط رہنمائی کرناخطرناک بات ہے۔

صحيح البخاری میں ہے :

"عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (‌من ‌جر ‌ثوبه ‌خيلاء، ‌لم ‌ينظر ‌الله ‌إليه ‌يوم ‌القيامة). فقال أبو بكر: إن أحد شقي ثوبي يسترخي، إلا أن أتعاهد ذلك منه؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (إنك لن تصنع ذلك خيلاء)۔"

ترجمہ:"عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے هيں كه رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے اپنا کپڑا غرور کی راہ سے لٹکایا اللہ اس کی طرف دیکھے گا بھی نہیں ( عنایت کرنا کجا)پس ابوبکر رضی اللہ عنہ نےفرمایا کہ میرے تہہ بند کا ایک جانب بلاقصد لٹک جاتا ہے البتہ اگر ہر وقت اس کو دیکھتا رہوں تو یہ اور بات ہے،آپﷺ نے فرمایا کہ تم ان لوگو ں میں سے نہیں ہوجوتکبرکے طور پر لٹکاتے ہیں۔"

(باب: من جر إزاره من غير خيلاء ، رقم :5447 ، ج  : 3  ، ط : دار ابن كثير )

مسلم شریف میں ہے :

" عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة، ولا ينظر إليهم، ولا يزكيهم ولهم عذاب اليم "، قال: فقراها رسول الله صلى الله عليه وسلم: ثلاث مرارا، قال ابو ذر: خابوا، وخسروا، من هم يا رسول الله؟ قال: " المسبل، والمنان، والمنفق سلعته بالحلف الكاذب ".

تر جمہ :"رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے،  فرماتے ہیں کہ " تین (قسم کے لوگ) ہیں اللہ ان سے گفتگو نہیں کرے گا، نہ قیامت کے روز ان کی طرف سے دیکھے گا اور نہ انہیں (گناہوں سے) پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔“ ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ نے اسے تین دفعہ پڑھا۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ نےکہا: ناکام ہو گئے اور نقصان سے دو چار ہوئے، اے اللہ کے رسول! یہ کون ہیں؟ فرمایا: ” اپنا کپڑا (ٹخنوں سے) نیچے لٹکانےوالا، احسان جتانے والا اور جھوٹی قسم سے اپنے سامان کی مانگ بڑھانے والا۔"

(صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب بیان غلظ تحریم  إسبال الإزار، 1/71، رقم: 106، بیت الأفکارالنسخة الهندیة)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے :

"حدثنا أبو بكر قال: حدثنا إسحاق بن سليمان عن أبي سنان عن أبي إسحاق قال: رأيت ناسًا من أصحاب رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم يأتزرون على أنصاف سوقهم، فذكر أسامة بن زيد وابن عمر وزيدبن أرقم والبراء بن عازب۔"

ترجمه : ابواسحاق سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے اصحاب  رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم میں سے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ ان کی آدھی پنڈلی پر ازار ہوتاتھا،پھراسامہ اور ابن عمر اورزيد بن أرقم اور براء بن عازب (رضوان اللہ اجمعین) کا ذکرکیا ۔

(موضع الإزار؛ أين هو ، ج : 13 ، ص : 529 ، ط  : دار كنوز)

بذل المجہود  میں ہے :

"قال العلماء: المستحب في الإزار والثوب إلى نصف الساقين، والجائز بلا كراهة ما تحته إلى الكعبين، فما نزل عن الكعبين فهو ممنوع، فإن كان للخيلاء فهو ممنوع منع تحريم وإلا فمنع تنزيه۔"

(باب ما جاء في إسبال الإزار  ، ج : 12 ، ص : 113  ، ط : مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)

فتح الباری میں ہے :

"وحاصله أن الإسبال يستلزم جر الثوب وجر الثوب يستلزم الخيلاء ولو لم يقصد اللابس الخيلاء ويؤيده ما أخرجه أحمد بن منيع من وجه آخر عن بن عمر في أثناء حديث رفعه وإياك وجر الإزار فإن جر الإزار من المخيلة وأخرج الطبراني من حديث أبي أمامة بينما نحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ لحقنا عمرو بن زرارة الأنصاري في حلة إزار ورداء قد أسبل فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يأخذ بناحية ثوبه ويتواضع لله ويقول عبدك وبن عبدك وأمتك حتى سمعها عمرو فقال يا رسول الله إني حمش الساقين فقال يا عمرو إن الله قد أحسن كل شيء خلقه يا عمرو إن الله لا يحب المسبل۔"

(باب من جر ثوبه من الخيلاء ، ج 10 ،: ص : 264 ، ط: دار المعرفة  بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510101721

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں