ہمارے علاقے میں لوگ سولر (شمسی) کی بور کرتے ہیں (یہ بور شمسی توانائی سے چلتے ہیں) اور ابتدا اس پر 15 / 16 لاکھ روپے خرچہ آتا ہے، بعد میں اس پر کوئی خرچہ نہیں آتا، اب مالک بور اس سے زمین سیراب کرتے ہیں، تو اس پیداوار پر عشر واجب ہوگا یا نصف عشر؟
دوسرے لوگ جو اس بور سے زمین سیراب کرتے ہیں، تو بور کا مالک ان سے فی گھنٹہ دو سو روپے لیتے ہیں، تو ان کی پیداوار پر عشر واجب ہوگا یا نصف عشر؟
صورت مسئولہ میں سائل کے علاقے میں شمسی توانائی سے چلنے والے بور سے زمین کو سیراب کیا جاتا ہے اور اس کی تنصیب میں پندرہ سے سولہ لاکھ روپے کا سرمایہ صرف ہوتا ہے،چونکہ زمین کی سیرابی میں سرمایہ صرف ہوا ہے، اس لئے اس بور (شمسی توانائی سے چلنے والے ) سے سیراب کئے گئےزمین پر شرعا نصف عشر ہے لہذا اس زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار میں نصف عشر یعنی کل پیداوار کا بیسواں حصہ ادا کرنا واجب ہے۔
نیز جو لوگ اس بور (شمسی توانائی سے چلنے والے ) کے مالک سے فی گھنٹہ دو سو روپے ادا کرکے اپنی زمین کو سیراب کرتے ہیں، تو ان کی کل پیداروار میں بھی نصف عشر کی ادائیگی واجب ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله يجب العشر)... أي يفترض... فإن عامة المفسرين على أنه العشر أو نصفه وهو مجمل بينه قوله صلى الله عليه وسلم ما سقت السماء ففيه العشر وما سقي بغرب أو دالية ففيه نصف العشر".
(كتاب الزكاة، باب العشر: 2/ 325، ط: سعید)
وفیہ ایضا:
"(و) يجب (نصفه في مسقي غرب) أي دلو كبير (ودالية) أي دولاب لكثرة المؤنة۔ قال ابن عابدین: لأن العلة في العدول عن العشر إلى نصفه في مستقى غرب ودالية هي زيادة الكلفة كما علمت".
(كتاب الزكاة، باب العشر: 2/ 328، ط: سعید)
البحر الرائق میں ہے:
"(قوله: ونصفه في مسقى غرب ودالية) أي ويجب نصف العشر فيما سقي بآلة للحديث والغرب دلو عظيم والدالية دولاب عظيم تديره البقر،... لأن النبي صلى الله عليه وسلم حكم بتفاوت الواجب لتفاوت المؤنة فلا معنى لرفعها أطلقه فشمل ما فيه العشر وما فيه نصفه فيجب إخراج الواجب من جميع ما أخرجته الأرض عشرا أو نصفا إلا أن ما تكلفه يأخذه بلا عشر أو نصفه".
(كتاب الزكاة، باب العشر: 2/ 256، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144308100933
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن