بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

شقِ صدرکاواقعہ کتنی دفعہ اورکس عمرمیں ہوا؟


سوال

حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شق صدر کتنی دفعہ ہوا تھا ؟کس موقع و کس عمر میں ؟ 

جواب

حضورﷺکوشقِ صدرکاواقعہ اپنی زندگی میں چارمرتبہ پیش آیاتھا،جس کی تفصیل درجہ ذیل ہے:

پہلی مرتبہ بچپن کےزمانے میں پیش آیا تھاجب آپﷺقبیلہ بنی سعدمیں اپنی رضاعی ماں حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنھاکے پرورش میں تھے،اس وقت آپ ﷺ کی عمرچارسال تھی،چناں چہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ آپ ﷺ بچوں کےساتھ کھیل رہےتھےکہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آئےاورآپ ﷺ کوپکڑااورچت لٹایااورآپ کاشکم مبارک چاک کرکےدل کونکالاپھراسے چاک کرکےخون کاٹکڑانکالااورکہاکہ یہ شیطان کاحصہ ہے،پھرسونے کےطشت میں زمزم کاپانی لےکرآئےتھے اسے قلب مبارک کو دھولیاپھراسے اپنی جگہ رکھ دیااورسینےپرٹانکےلگائے،لڑکوں نےجب یہ دیکھاتووہ آپ کی رضاعی ماں کی طرف دوڑےاوربتایاکہ آپ ﷺتومارڈالےگئےتوجب لوگ آئےتوآپ کوخوف زدہ پایا،حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس واقعے کوبیان فرماتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کےسینےپرٹانکےکانشان دیکھا۔

دوسری مرتبہ مکہ مکرمہ میں  دس سال کی عمرمیں پیش آیاتھا،حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےآپ ﷺ سے پوچھاکہ نبوت کے ابتدائی واقعات کیاہیں توآپﷺنے فرمایاکہ میں دس سال کاتھاجنگل میں چل رہاتھاکہ اچانک دوآدمی میرےسرکے پاس آئےتوایک نےدوسرے سےکہاکہ :کیایہ واقعی وہی ہیں؟! تودوسرے نےکہاکہ ہاں ،تو مجھےپکڑکرلےگئے،ہم نےان جیسی مخلوق کبھی نہیں دیکھی تھی نہ ایسی خوشبواورنہ کپڑے جس میں وہ ملبوس تھے،پس وہ دونوں مجھے پکڑکرلےچلےاورہرایک نےمیرےبازوکوپکڑلیاجب کہ مجھے ان کےچھونے کااحساس تک نہیں ہورہاتھا،پس ایک نےدوسرے سےکہاکہ ان کولیٹادوتومجھے گدی کےبل لیٹایااورسینے کوچاک کیا،ایک روایت میں ہے کہ ایک نےدوسرے سےکہاکہ دل کوچیردوتواس نےدل کوچیراپھرکہاکہ ان کےدل سےحسد اورکینے کونکال دوپس اس نےجمےہوئےخون کی شکل میں کچھ نکال دیااورپھینک دیاپھرکہاکہ ان کےدل میں شفقت ورحمت داخل کردوتواس نےچاندی کی مانند کوئی چیزداخل کی پھرایک باریک کوٹی ہوئی چیزنکالی  اسے چھڑک دیاپھرمیرےانگوٹھے کوپکڑااورکہا کہ اٹھواورٹھیک رہو۔میں وہاں سےواپس آیاتوچھوٹوں اوربڑوں پررحم کرنےوالاتھا۔

تیسری مرتبہ بعثت کےوقت یعنی چالیس سال کےقریب  پیش آیاتھا،جب کہ آپ ﷺ کونبوت ملنے والی تھی،اس بارے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہھاکی لمبی روایت منقول ہےجس کاخلاصہ یہ کہ آپ ﷺایک رات باہرنکلےتو"السلام علیکم"کی آوازسنائی دی توآپ ﷺ نےسوچاشایدکوئی جن ہےتوواپس آکرحضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھاسےاس کوتذکرہ کیاتوآپ رضی اللہ تعالیٰ عنھانےتسلی دی کہ سلام تواچھاہےپھردوسری مرتبہ آپﷺ نےحضرت جبریل علیہ السلام کوسورج پرمشرق ومغرب کوگھیراہوادکھائی دیاتوآپ گھبراہٹ کی وجہ سےگھرکی طرف آئےتوان کوگھرکےدروازےپرپایااوراُنس پیداکرنےکےلیےکچھ گفتگوکی اورایک مقام کاوعدہ کیاتوآپ ﷺوہاں گئےلیکن  حضرت جبریل علیہ السلام کوتاخیرہوئی توآپ ﷺواپس آنےکےارادے سےاٹھ کھڑےہوئےکہ اچانک جبریل ِامین کےساتھ میکائیل علیھماالسلام بھی حاضرہوئےجنہوں نےپورے آسمان کوگھیررکھاتھا،پس صرف جبرئیلِ امین نیچےاترےاورمجھے پکڑکرلیٹادیا۔۔۔باقی واقعہ تقریبااسی کےمشابہ ہےجوماقبل میں گزرگیا۔

چوتھی مرتبہ واقعہ معراج کے وقت آسمان پرجانے سےپہلےمکہ مکرمہ ميں پیش آیاتھااوریہ آخری مرتبہ تھا،حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ سے روایت منقول ہےکہ آپﷺ نےفرمایاکہ میں  اپنےگھرمیں  اپنےاہل وعیال میں تھاکہ مجھے زمزم کےپاس لےجایاگیااورمیراسینہ کھولاگیاپھرحکمت وایمان   سےبھراہواسونےکاطشت لایاگیااورمیرےسینے میں ڈالاگیا(حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتےہیں کہ آپ ﷺ نےاپناسینہ مبارک دیکھایا)پھرآپ ﷺ نےفرمایا کہ اس کےبعدمجھےفرشتہ آسمان کی طرف لےگیا۔

صحیح البخاری میں ہے:

"قال أنس: كان أبو ذر رضي الله عنه يحدث:أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (‌فرج ‌سقف ‌بيتي وأنا بمكة، فنزل جبريل ففرج صدري، ثم غسله بماء زمزم، ثم جاء بطست من ذهب، ممتلئ حكمة وإيمانا، فأفرغها في صدري، ثم أطبقه..الخ".

(كتاب الأنبياء، باب ذكر إدريس عليه السلام، ج:3، ص:1217، ط:دار ابن كثير) 

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أنس بن مالك « أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أتاه جبريل صلى الله عليه وسلم وهو ‌يلعب ‌مع ‌الغلمان، فأخذه فصرعه فشق عن قلبه، فاستخرج القلب، فاستخرج منه علقة، فقال: هذا حظ الشيطان منك، ثم غسله في طست من ذهب بماءزمزم، ثم لأمه، ثم أعاده في مكانه، وجاء الغلمان يسعون إلى أمه - يعني: ظئره -، فقالوا: إن محمدا قد قتل، فاستقبلوه وهو منتقع اللون. قال أنس: وقد كنت أرى أثر ذلك المخيط في صدره .»"

(كتاب الإيمان، باب الإسراء برسول الله ﷺ، ج:1، ص:101، ط:دار الطباعة العامرة-ترکیا-)

صحیح ابن حبان میں ہے:

"قال أبو حاتم: شق صدر النبي صلى الله عليه وسلم وهو صبي يلعب مع الصبيان، وأخرج منه العلقة، ولما أراد الله جل وعلا الإسراء به أمر جبريل بشق صدره ثانيا، وأخرج قلبه فغسله، ثم أعاده مكانه مرتين في موضعين، وهما غير متضادين".

(القسم الثالث من السنن وهوالأخبار، النوع الثاني:ذكرشق جبريل عليه السلام صدرالمصطفي ﷺفی صباہ، ج:4، ص:30، ط:دار ابن حزم بیروت) 

فتح الباری میں ہے:

"ومحصله أن الشق الأول كان لاستعداده لنزع العلقة التي قيل له عندها هذا حظ الشيطان منك والشق الثاني كان لاستعداده للتلقي الحاصل له في تلك الليلة...وروي الشق أيضا وهو بن عشر أو نحوها في قصة له مع عبد المطلب أخرجها أبو نعيم في الدلائل وروي مرة أخرى خامسة ولا تثبت قوله".

(كتاب الإيمان، قوله:باب كيف فرضت الصلاة، ج:1، ص:460، ط:دار المعرفة)

عمدۃ القاری میں ہے:

"وقد استنكر بعضهم وقوع ‌شق ‌الصدر ليلة المعراج، وقال: إنما كان ذلك وهو صغير في بني سعد ورد بأنه ثبت ‌شق ‌الصدر أيضا عند البعثة، ثم وقع أيضا عند إرادة العروج إلى السماء".

( کتاب بدأالخلق، باب المعراج، ج:17، ص:23، ط:دار الفکر)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وقد وقع الشق له صلى الله عليه وسلم مرارا، فعند حليمة، وهو ابن عشر، ثم عند مناجاة جبريل عليه السلام له بغار حراء، ثم في المعراج ليلة الإسراء. (رواه مسلم) . وكذا النسائي".

(كتاب الفضائل، باب علامات النبوة، ج:9، ص:3743، ط:دار الفكر) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510100005

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں