میں شراب کے نشے میں تھا اور اسی نشے کی حالت میں میں نے بیوی کو یہ الفاظ کہے "میں طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں ، طلاق دیتا ہوں" اس واقعے کو دو دن ہوچکے ہیں، کیا طلاق واقع ہوگئی ہے؟ اگر طلاق واقع ہوگئی ہے تو کتنی ہوئی ہے اور رجوع کرنے کا کیا طریقہ ہے؟
شراب پینا حرام ہے اور شراب پینے والے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت برستی ہے، اس لیے شراب پینے سے سچے دل سے توبہ کرکے ہمیشہ کے لیے اسے ترک کردینا چاہیے، باقی شراب کے نشے میں بھی طلاق دینےسے طلاق واقع ہوجاتی ہے اس لیے آپ نے اپنی بیوی کو شراب کے نشے میں جو الفاظ کہے تھے کہ "میں طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں ، طلاق دیتا ہوں" ان الفاظ کی وجہ سے آپ کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،آپ دونوں کا نکاح ٹوٹ چکا ہے، آپ دونوں کے درمیان حرمتِ مغلظہ قائم ہوچکی ہے، اب رجوع بھی جائز نہیں ہے اور دوبارہ نکاح کر کے ساتھ رہنا بھی جائز نہیں ہے، عدت (تین ماہواری بشرطیکہ حمل نہ ہو) گزارنے کے بعد خاتون کسی بھی دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوں گی۔ اگر آپ کی سابقہ بیوی عدت گزرنے کے بعدکسی دوسرے شخص سے نکاح کرلیں، پھر اس دوسرے شوہر سے ازدواجی تعلق قائم ہونے کے بعد اس دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ طلاق دے دے تو پھر اس دوسرے شوہر کی عدت گزارنے کے بعد آپ کی سابقہ بیوی کا آپ کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہوگا۔
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"{يٰاَيُّهَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَآءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ}."[المائدة: 90، 91]
ترجمہ:" اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت اور جوئے کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں، سو اس سے بالکل الگ الگ رہو؛ تاکہ تم کو فلاح ہو، شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ تمہارے آپس میں بغض اور عدوات پیدا کردے اور اللہ کی یاد سے اور نماز سے تم کو باز رکھے، سو کیا اب بھی باز آؤ گے۔"
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) ولو تقديرا بدائع، ليدخل السكران.
(قوله: ليدخل السكران) أي فإنه في حكم العاقل زجرًا له، فلا منافاة بين قوله عاقل وقوله الآتي أو السكران."
(كتاب الطلاق،3/ 235، ط:سعيد)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وبين في التحرير حكمه أنه إن كان سكره بطريق محرم لايبطل تكليفه فتلزمه الأحكام وتصح عبارته من الطلاق والعتاق، والبيع والإقرار، وتزويج الصغار من كفء، والإقراض والاستقراض لأن العقل قائم، وإنما عرض فوات فهم الخطاب بمعصيته، فبقي في حق الإثم ووجوب القضاء."
(كتاب الطلاق،3/ 239، ط:سعيد)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"لكن لا بد في وقوعه قضاءً وديانةً من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها."
(کتاب الطلاق،3/ 250، ط: سعید)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"لو أراد طلاقها تكون الإضافة موجودةً ويكون المعنى فإني حلفت بالطلاق منك أو بطلاقك، ولايلزم كون الإضافة صريحةً في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له: من عنيت؟ فقال: امرأتي، طلقت امرأته، العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله: إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها؛ لأنه يحتمله كلامه."
(كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، مطلب سن بوش، 3/ 348، ط: سعيد)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية."
(کتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج: 1/ 472، ط: دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603101874
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن