بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

شراب کےنشہ میں بیوی کوایک طلاق دی،اس کاحکم


سوال

رمضان میں میری بیوی کی طبیعت خراب ہوگئی ذہنی سکون نہیں تھا،اس کاعلاج چل رہاتھا،اس دوران ہمارےدرمیان لڑائی بھی ہوتی رہی،ایک دن اس کی والدہ اورخالہ ہمارےگھرآکراسےاپنےساتھ لےکرچلےگئے،میں جب گھرآیااوربیوی کونہیں پایاتومجھےسخت غصہ آیا،کیوں کہ میں شراب پی کےگھرآگیاتھا،پھراسی حالت ہی میں اپنی ساس کےگھرچلاگیااوراپنےساتھ بیوی کوگھرلےآیا،یہ بدھ کادن تھا،پھرجمعرات کےدن میں اپنی بیوی کولےکرساس کےگھرگیا،وہاں ناشتہ کیا،میری بیوی نےاپنے گھر والوں سےکہاکہ اس نےکل مجھےایک طلاق دی ہے،میں حیران ہوگیا،لیکن پھربھی ہم ہفتہ،اتواراورپیرتک میاں بیوی کی طرح ساتھ رہےاورہمبستری بھی ہوئی ہے، پھرپیر کےدن میں ان کےگھروالوں کویہ کہ کرنکلاکہ آج کےبعدمیں یہاں نہیں آوں گا،صرف بچوں کوملنےآیاکروں گا،باقی جب اپناگھرخریدلوں توپھرتم میرے ساتھ چلے آنا۔

اب اس بات کودوماہ ہونےکوہے،میری ساس کہہ رہی ہےکہ پیرکوطلاق دےکرچلاگیاہےاوربیوی کہہ رہی ہےبدھ کوطلاق دی ہے،جب کہ طلاق کےبارےمیں مجھےکچھ علم نہیں ہے۔

وضاحت:طلاق کےالفاظ"میں نےتمہیں طلاق دی ہے"اورپیرکےدن جویہ کہاکہ آج کےبعدمیں یہاں نہیں آوں گا،اس کامقصدیہ تھاکہ اپناگھرخریدکربیوی کوساتھ رکھوں گا۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگر سائل کی بیوی سائل کے نشہ کی حالت میں ایک طلاق دینے کا دعوی کررہی ہے اور   سائل کونشہ کی وجہ سے  طلاق دینایاد نہیں ہے، توچوں کہ سائل انکارنہیں کرسکتاہے،اس لیےاس کی بیوی کادعوی شرعامعتبرماناجائےگااور  اس پرایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی  ،اس کےبعدچوں کہ دونوں بحیثیت میاں بیوی ساتھ رہتے رہے ،ازدواجی تعلق بھی قائم کیا،اس لیےرجوع ثابت ہوچکاہے،اب  بیوی بدستورسائل کی نکاح میں ہے،آئندہ کے لیے سائل کوصرف دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا ،تاہم سائل  پر لازم ہے کہ  وہ شراب نوشی سے پکی سچی توبہ کرے اور آئندہ اس کے قریب بھی نہ جائے ۔

باقی سائل نےاپنی ساس کےگھراپنی بیوی سےکہاکہ:"آج کےبعدمیں یہاں نہیں آوں گا،صرف بچوں کو ملنےآیاکروں گا،باقی جب اپناگھرخریدلوں توپھرتم میرے ساتھ چلے آنا"ان الفاظ سےکوئی  طلاق واقع نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌ويقع ‌طلاق ‌كل ‌زوج بالغ عاقل) ولو تقديرا.بدائع، ليدخل السكران.

(قوله ليدخل السكران) أي فإنه في حكم العاقل زجرا له، فلا منافاة بين قوله عاقل وقوله الآتي أو السكران."

(كتاب الطلاق، ركن الطلاق، ج:3،ص:235، ط:دار الفكر)

دررالحکام شرح غررالاحکام میں ہے:

"والفتوى أنه إذا سكر من محرم فيقع طلاقه وعتاقه كما في الأشباه والنظائر."

(كتاب الطلاق، ج:1، ص:360، ط:دار إحياء الكتب العربية)

البنایہ شرح الہدایہ میں ہے:

"طلاق ‌السكران ‌واقع إذا سكر من الخمر والنبيذ، ولو أكره على الشرب فسكر أو شرب للضرورة فذهب عقله يقع طلاقه. وفي جوامع الفقه عن أبي حنيفة: يقع، وبه أخذ شداد ولو ذهب عقله بدواء أو أكل البنج لا يقع."

(كتاب الطلاق، باب طلاق السكران، ج:5، ص:300، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144601101805

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں