بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

شراکت داری میں ایک شریک کے لیے نفع کم مقرر کرنا اور نفع طے کرنے کا طریقہ


سوال

میں اسٹیٹ ایجنسی کا کام کرتا ہوں،جس میں میرے ساتھ میری بہن اور ایک تیسرا پارٹنر بھی شامل ہیں،ہم سب کا سرمایہ برابر ہوتا ہے،مثلاً ہم تینوں میں سے ہر ایک 50 ،50 روپے دیتا ہے،اس طرح مجموعی طور پر 150 روپے ہوجاتے ہیں،پھر اس سے ایک گھر خریدتے ہیں،اس گھر کی خریداری اور دوسری پارٹی کی تلاش وغیرہ کا کام میں اور میرا پارٹنر کرتے ہیں،میری بہن کی طرف سے صرف سرمایہ ہوتا ہے، کوئی عمل وغیرہ نہیں  ہوتا تو اس وجہ سے ہم ا ن کا منافع بھی  کم رکھتے ہیں۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ  کیا اس طرح ایک شریک کے لیے منافع کم رکھناشرعاً جائز ہے یا نہیں ،اور یہ حرام میں تو شما رنہیں ہو گا؟دوسری بات یہ پوچھنی ہے کہ  ہم نے منافع کی صورت یہ رکھی ہے کہ میں  اپنی بہن کو  اس کے کل سرمایہ یعنی 50 روپے پر 10 فیصد منافع  دیتا ہوں،تینوں شرکاء کے کل سرمایہ کے اعتبار سے منافع نہیں دیتا،اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟یہ جائز ہے یا نہیں،اگر جائز نہیں ہے تو منافع کس طرح طے کیا جائے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں کاروبار میں شریک بہن کو  اس کے سرمایہ کا 10 فیصد دینا سائل کے لیے جائز نہیں  ، کیوں کہ ایسا کرنا نفع کی تقسیم کے شرعی ضابطہ کے خلاف ہے، نفع ونقصان کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ تینوں شرکاء نقصان کی صورت میں اپنے اپنے سرمایہ کے بقدر ذمہ دار قرار دیے جائیں، جبکہ جو نفع ہو، اس کل نفع میں فیصد کے اعتبارسے  شریک ہوں، نیز اگر کوئی شریک عملی طور پر کاروبا رمیں خدمات فراہم نہ کرتا ہو، اس کے لیے کم نفع مقرر کیا جاسکتا ہے، لہذا مسئولہ صورت میں کاروبار میں منافع میں سے شریک بہن کے لیے باہمی رضامندی سے مثلاً 20 فیصد اور بقیہ دو شریکوں کے لیے  40، 40 فیصد نفع  طے کیا جا سکتا ہے، پس حسب ضابطہ نفع تقسیم کرتے ہوئے کل نفع کا مثلا  20 فیصد بہن کو دیا جائے، اور کل نفع کا 40، 40 فیصد بقیہ دو شریکوں کو دیا جائے۔جبکہ نقصان کی صورت میں پہلے حاصل شدہ نفع اگر چہ تقسیم ہوچکا ہو،اسی سے  نقصان پورا کیا جائے گا،نیز  یہ بھی ہر شریک کو واضح کیا جائےتاکہ کوئی ابہام نہ رہے،اور اگر اس سے بھی پور ا نہ ہوتا ہوتو ہر شریک کو سرمایہ کے تناسب سے نقصان برداشت کرنا ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وهي) أربعة: مفاوضة، وعنان، وتقبل، ووجوه، وكل من الأخيرين يكون مفاوضة وعنانا كما سيجيء - إما مفاوضة) من التفويض، بمعنى المساواة في كل شيء (إن تضمنت وكالة وكفالة) لصحة الوكالة بالمجهول ضمنا لا قصدا (وتساويا مالا) تصح به الشركة، وكذا ربحا كما حققه الواني."

(کتاب الشركة، ج:4، ص:305 تا 306، ط:سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"(ومنها) : أن يكون الربح جزءًا شائعًا في الجملة، لا معينًا، فإن عينا عشرةً، أو مائةً، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدةً؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لايحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلايتحقق الشركة في الربح."

(کتاب الشرکة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة، ج:6، ص:59، ط:دارالکتب العلمیة۔بیروت)

وفیه ایضاً:

"‌إذا ‌شرطا الربح على قدر المالين متساويا أو متفاضلا، فلا شك أنه يجوز ويكون الربح بينهما على الشرط سواء شرطا العمل عليهما أو على أحدهما والوضيعة على قدر المالين متساويا ومتفاضلا؛ لأن الوضيعة اسم لجزء هالك من المال فيتقدر بقدر المال، وإن كان المالان متساويين فشرطا لأحدهما فضلا على ربح ينظر إن شرطا العمل عليهما جميعا جاز، والربح بينهما على الشرط."

(کتاب الشرکة، فصل فی بیان شرائط جواز انواع الشرکة، ج:6، ص:62، ط:دار الکتب العلمیة۔بیروت)

البحرالرائق میں ہے:

"(قوله وتصح مع التساوي في المال دون الربح وعكسه) وهو التفاضل في المال والتساوي في الربح، وقال زفر والشافعي لا يجوز؛ لأن التفاضل فيه يؤدي إلى ربح ما لم يضمن فإن المال إذا كان نصفين والربح أثلاثا فصاحب الزيادة يستحقها بلا ضمان إذ الضمان بقدر رأس المال؛ لأن الشركة عندهما في الربح كالشركة في الأصل ولهذا يشترطان الخلط فصار ربح المال بمنزلة نماء الأعيان فيستحق بقدر الملك في الأصل ولنا قوله - عليه السلام - «الربح على ما شرطا والوضيعة على قدر المالين» ولم يفصل؛ ولأن الربح كما يستحق بالمال يستحق بالعمل كما في المضاربة."

(كتاب الشركة، شركة العنان، ج5، ص188، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144607100049

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں