ایک کمپنی ہے جو بڑے پیمانے پر زمین خریدتی ہے، پھر اس کے ٹاؤن بناتی ہے اور لوگوں کو بیچتی ہے، ایک مرلہ کی انہوں نے قیمت عام گاہک کے لیے تین لاکھ روپے رکھی ہے اور انویسٹر کو وہ ایک مرلہ ایک لاکھ پر بیچتی ہے، پھر اس کے ساتھ یہ معاہدہ کیا جاتا ہے کہ وہ نہ تو خود اسے استعمال کر سکتا ہے اور نہ کسی دوسرے کو بیچ سکتا ہے، اگر اس نے معاہدہ توڑا تو اسے ایک فلور کی پوری قیمت یعنی تین لاکھ ادا کرنی پڑے گی، البتہ اگر وہ اسے بیچنا چاہے تو کمپنی کو بیچے، اگر وہ ایک سال کے بعد کمپنی کو بیچے گا تو کمپنی ایک لاکھ کے ساتھ 60 ہزار دے گی اور اگر دو سال کے بعد بیچے گا تو ایک لاکھ کے ساتھ ایک لاکھ بیس ہزار دے گی، غرض جتنے سال بڑھیں گے 60- 60 ہزار بڑھتے جائیں گے، ایک شخص نے ان سے پانچ مرلہ پلاٹ پانچ لاکھ میں خریدا، اب وہ انہیں پانچ سال بعد بیچے گا تو وہ پلاٹ کی قیمت یعنی پانچ لاکھ کے ساتھ تین لاکھ اس کو دے گی، سوال یہ ہے کہ ایسا معاملہ شرعا درست ہے یا نہیں؟ کیا یہ معاملہ سود میں شمار ہوگا؟
سوال میں مذکورہ معاملہ کی جو صورت ذکر کی گئی ہے یہ صورت جائز نہیں؛ اس لیے کہ اس معاملے میں یہ شرط لگائی گئی ہے کہ خریدنے والا اس چیز کو خود بھی استعمال نہیں کر سکتا اور نہ ہی کسی اور کو فروخت کر سکتا ہے، بلکہ اگر فروخت کرنا ہو تو صرف فروخت کنندہ کو فروخت کرسکے گا اور شرعی طور پر یہ شرط فاسد ہے، اس وجہ سے یہ معاملہ فاسد اور ناجائز ہے۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"ولو اشترى شيئا ليبيعه من البائع فالبيع فاسد ... ولو باع عبدا أو جارية بشرط أن لا يبيعه وأن لا يهبه ولا يخرجه عن ملكه فالبيع فاسد كذا في البدائع... رجل باع شيئا على أن يشتريه لنفسه لا يجوز البيع"
(كتاب البيوع ، الباب العاشر ، جلد : 3 ، صفحه : 134 ، طبع : دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606102172
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن