بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے نان نفقہ نہ دینے اور ظلم کی بنیاد پر فسخِ نکاح کا حکم


سوال

میری شادی کو چار سال ہو چکے ہیں اور میرا شوہر نشے کا عادی ہے۔ وہ خرچہ وغیرہ کچھ نہیں دیتا۔ کچھ مہینے گھر کا کرایہ دیا، پھر جب کرایے کے پیسے مانگتی ہوں تو اتنا مارتا ہے کہ کئی مرتبہ میں مرنے کے قریب پہنچ گئی اور ہسپتال لے جانا پڑا۔ میرے حقِ مہر کا سونا بیچ کر اس نے آپریشن کروایا، اور باقی دو تولہ سونا بھی نہیں دیا۔

ان معاملات کی وجہ سے جب میں اپنے بھائی کے گھر چلی جاتی ہوں تو یہ چار پانچ ہزار روپے دے کر مجھے دوبارہ لے آتا ہے اور پھر اپنی پرانی روش پر لوٹ آتا ہے۔

میں کھانا پینا اپنے بھائی کے گھر سے کرتی ہوں اور گھر اور بچی کا خرچہ اپنے مدرسے کی تنخواہ سے اٹھاتی ہوں۔

میں اس سے طلاق یا خلع چاہتی ہوں مگر یہ نہیں دیتا۔ کیا میں اس سے نکاح فسخ کروا سکتی ہوں؟

شوہر کہتا ہے کہ میں طلاق اس شرط پر دوں گا کہ جو دس ماہ کی بچی ہے وہ مجھے دے دو، اور میں اسے زندہ دفن کر دوں گا۔ اور جب سے بچی پیدا ہوئی ہے، وہ کہتا ہے کہ اس کا دوست کہتا ہے کہ بچی کو نوے لاکھ میں بیچ دو۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائلہ کا شوہر نان و نفقہ ادا نہیں کر رہا، اور طلاق دینے پر بھی آمادہ نہیں، تو عورت کے لیے یہ گنجائش موجود ہے کہ وہ شوہر کو کچھ مال یا حقِ مہر واپس دے کر باہمی رضامندی سے خلع حاصل کرے۔

اگر شوہر خلع پر بھی راضی نہ ہو، جبکہ سائلہ اس سے رشتۂ ازدواج ختم کرنا چاہتی ہو، تو وہ شوہر کی جانب سے نان و نفقہ کی عدم ادائیگی    کی بنیاد پر مسلم عدالت میں تنسیخِ نکاح کا مقدمہ دائر کر سکتی ہے۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ سائلہ پہلے شرعی گواہوں کے ذریعے اپنے نکاح کو ثابت کرے، پھر شوہر کی طرف سے  نان و نفقہ کی عدم ادائیگی  کو بھی شرعی شہادت کے ساتھ ثابت کرے۔

اس کے بعد قاضی شرعی شہادت کی بنیاد پر مکمل تحقیق کرے گا۔ اگر عورت کا دعویٰ درست ثابت ہو جائے کہ شوہر وسعت کے باوجود حقوق ادا نہیں کر رہا، تو قاضی شوہر کو عدالت میں پیش ہونے کا سمن جاری کرے گا۔

اگر شوہر عدالت میں حاضر ہو کرحقوق ادا کرنے پر آمادہ ہو جائے، تو بہتر؛ لیکن اگر وہ حاضر نہ ہو، یا حاضر ہو کر بھی حقوق ادا کرنے پر آمادہ نہ ہو، تو عدالت نکاح کو فسخ کر سکتی ہے۔

فسخِ نکاح کے بعد عورت عدت گزار کر دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔

میاں بیوی میں علیحدگی کے بعد لڑکی کی پرورش کا حق  نو سال کی عمرہونےتک  ان کی والدہ کو حاصل ہے، بشرطیکہ بچوں کی والدہ  ان کے غیرمحرم سے شادی نہ کرے،  اگر  مطلقہ نے بچوں کے کسی غیرمحرم سے شادی کر لی، تو والدہ کا پرورش کا حق ختم ہوجائے گا اور پھرنانی کوحقِ پرورش حاصل ہوگا اگر نانی زندہ ہو۔  اور اگر نانی زندہ نہیں، تو  دادی کوحقِ پرورش حاصل ہوگا۔نو سال کے بعد اگر والد کی حالت قابل ِاعتماد ہو تو اسے پرورش کا حق حاصل ہوگااور اگر اس وقت بھی والد  کے پاس رہنے  میں بچی کی جان یا عزت کامحفوظ نہ  رہ سکتی ہو تو اسے پرورش کا حق شرعا حاصل نہ ہوگا۔

الاختيار لتعليل المختار میں ہے :

"الخلع:وهو أن تفتدي المرأة نفسها بمال ليخلعها به، فإذا فعلا لزمها المال ووقعت تطليقة بائنة.

قال: (وهو أن تفتدي المرأة نفسها بمال ليخلعها به، فإذا فعلا لزمها المال ووقعت تطليقة بائنة) والأصل في جوازه قوله تعالى: {فإن خفتم ألا يقيما حدود الله فلا جناح عليهما فيما افتدت به} [البقرة: 229] ، وإنما تقع تطليقة بائنة لقوله عليه الصلاة والسلام: «الخلع تطليقة بائنة»."

( کتاب الطلاق، ‌‌باب الخلع، ج:3، ص:156، ط:دار الكتب العلمية)

حیلہ ناجزۃ میں ہے :

"وأما المتعنت الممتنع عن الإنفاق ففي مجموع الأمير مانصه:إن منعها نفقة الحال فلها نفقة القيام فإن لم يثبت عسره أنفق أو طلق وإلا طلق عليه.قال محشيه قوله:وإلا طلق أي طلق عليه الحاكم من غير تلوم إلي أن قال:وإن تطوع بالنفقة قريب أوأجنبي فقال ابن القاسم لها أن تفارق لأن الفراق قد وجب لها.وقال ابن عبدالرحمن لا مقال لها لأن سبب الفراق هو عدم النفقة قد انتهي وهو الذي تقضيه المدونة كما قال ابن المناصف."

(فصل فی حکم زوجة المتعنت:،ص:133،ط:دارالاشاعت)

الاختيار لتعليل المختار میں ہے:

"وإذا اختصم الزوجان في الولد قبل الفرقة أو بعدها فالأم أحق، ثم أمها ثم أم الأب ثم الأخت لأبوين ثم لأمثم لأب، ثم الخالات كذلك، ثم العمات كذلك أيضا،وبنات الأخت أولى من بنات الأخ، وهن أولى من العمات، ومن لها الحضانة إذا تزوجت بأجنبي سقط حقها، فإن فارقته عاد حقها، والقول قول المرأة في نفي الزوج، ويكون الغلام عندهن حتى يستغني عن الخدمة، وتكون الجارية عند الأم والجدة حتى تحيض وعند غيرهما حتى تستغني."

(کتاب الطلاق،،‌‌فصل في الحضانة، ج: 4، ص: 14، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرًا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم، بحر بحثاً."

(کتاب الطلاق، باب الحضانۃ ،ج:3،ص:566 ،ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144610100895

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں