میں نے پہلی شادی جس سے کی تھی،اس نے مجھے طلاق دی،اس کے بعد میں نے دوسری شادی کی پہلے شوہر سے میری دو بیٹیاں تھیں،میں نے جب دوسری شادی کی تو میرے شوہر بے روزگار تھے ان کا گاؤں میں ایک کارخانہ ہے لیکن وہ اس وقت ٹھیک نہیں چل رہا تھا،جس کے لیے اس کو رقم کی ضرورت تھی،تو میں وقتاً فوقتاً واپسی کی شرط پر ان کو رقم دیتی رہی جو کہ کل دس لاکھ ہے،اس کے علاوہ انہوں نے میرا ایک گھر جو کہ میرا ذاتی تھا،فروخت کر دیا میں نے ان کے ساتھ یہ شرط رکھی کہ یہ گھر تم لے کر خود بیچنا پھر بعد میں مجھے ایک گھرلے کر دے دینا،اور چوڑیاں جو سونے کی تھی اس کے بارے میں بھی میں نے یہ شرط رکھی تھی کہ ابھی اپنی ضرورت پوری کر لو،بعد میں مجھے اس طرح لے کر دے دینا ۔
اب شوہر کا کہنا ہے کہ میں اس کے بدلے رقم دوں گا،گھر اور چوڑیاں لے کر نہیں دوں گا(گھر حیدر آباد میں تھا 120 گز کا،اور چوڑیاں چار تولہ سونا کی تھی)اب اس بارے میں آپ سے شرعی راہ نمائی درکار ہے کہ اس کے بدلے رقم ادا کرنا شرعاًجائز ہے؟ جب کہ میرا مطالبہ رقم کا نہیں ہے ۔
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائلہ(بیوی)نے اپنے شوہر کو دس لاکھ روپے ،زیوارات اور گھر، واپسی کی شرط پر دی تھی،تو اب شوہر پر سائلہ(بیوی)کو دس لاکھ روپےاورچار تولہ سونے کی چوڑیاں لے کر دینا لازم ہے،سائلہ کی رضا مندی کے بغیر سونےکی چوڑیوں کی عوض رقم واپس کرنا جائز نہیں ہےچار تولہ سونے کی چوڑیاں بنا کر دینا ہی لازم ہوگا۔البتہ جو گھرفروخت کیا تھاویسا ہی گھر دوبارہ دلانا عادۃ ممکن نہیں ہوتا اس لیے مکان کے بدلے اس جیسے مکان کی موجودہ قیمت ادا کی جا سکتی ہے۔
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"ثم الأصل فيه أن ما يكون مضمونا بالمثل على الغاصب، والمستهلك له يجوز استقراضه؛ لأن المقبوض بحكم القرض مضمون بالمثل من غير احتمال الزيادة، والنقصان، وما يكون مضمونا بالقيمة لا يجوز الاستقراض فيه؛ لأن طريق معرفة القيمة الحزر والظن، فلا تثبت به المماثلة المعتبرة في القرض كما لا تثبت به المماثلة المشروطة في مال الربا".
(کتاب الصرف، باب البيع بالفلوس، ج:14، ص:31، ط:مطبعة السعادة - مصر)
وفیہ ایضاً:
"وإن استقرض دانقا فلوسا، أو نصف درهم فلوس فرخصت، أو غلت لم يكن عليه إلا مثل عدد الذي أخذ؛ لأن الضمان يلزمه بالقبض، والمقبوض على وجه القرض مضمون بمثله۔۔۔وكذلك لو قال: أقرضني عشرة دراهم بدينار، فأعطاه عشرة دراهم فعليه مثلها، ولا ينظر إلى غلاء الدراهم، ولا إلى رخصها، وكذلك كل ما يكال، أو يوزن فالحاصل، وهو أن المقبوض على وجه القرض مضمون بالمثل، وكل ما كان من ذوات الأمثال يجوز فيه الاستقراض".
(کتاب الصرف، باب البيع بالفلوس، ج:14، ص:30، ط:مطبعة السعادة - مصر)
بدائع الصنائع میں ہے:
"أن المبيع لا يخلو إما إن كان من المثليات من المكيلات والموزونات والعدديات المتقاربة وإما أن يكون من غيرها من الذرعيات والعدديات المتفاوتة".
(کتاب البیوع، فصل في شرائط الصحة في البيوع، ج:5، ص:158، ط:مطبعة الجمالية بمصر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601102262
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن