بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

شیخ فانی کےروزوں کافدیہ کب ادا کیا جائے گا؟


سوال

شیخ ِفانی کےروزوں کافدیہ نمازِعید سےپہلےپہلےدیناضروری ہےیابعدمیں بھی دیاجاسکتاہے؟

جواب

بہترتویہ ہےکہ نمازِعیدسےپہلےپہلےاداکیاجائے، چاہےرمضان کےشروع میں ہویاآخرمیں ہو، لیکن اگرنمازِعید تک ادانہیں کیاگیاتوبعدمیں بھی اداکیاجاسکتاہے، بلکہ اداکرناضروری اورواجب ہے، کیوں کہ رمضان گزرنےسےذمےسےساقط نہیں ہوتا، بلکہ بدستوراس کاوجوب برقراررہتاہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وكذا كبر السن حتى يباح للشيخ الفاني أن يفطر في شهر رمضان لأنه عاجز عن الصوم وعليه الفدية عند عامة العلماء،،،،،،،،ولأن الصوم لما فاته مست الحاجة إلى الجابر وتعذر جبره بالصوم فيجبر بالفدية، وتجعل الفدية مثلا للصوم شرعا في هذه الحالة للضرورة كالقيمة في ضمان المتلفات، ومقدار الفدية مقدار صدقة الفطر، وهو أن يطعم عن كل يوم مسكينا مقدار ما يطعم في صدقة الفطر۔"

(کتاب الصوم ، 97/2، ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وللشيخ الفاني العاجز عن الصوم الفطر ويفدي) وجوبا ولو في أول الشهر(قوله وللشيخ الفاني) أي الذي فنيت قوته أو أشرف على الفناء، ولذا عرفوه بأنه الذي كل يوم في نقص إلى أن يموت نهر، ومثله ما في القهستاني عن الكرماني: المريض إذا تحقق اليأس من الصحة فعليه الفدية لكل يوم من المرض اهـ وكذا ما في البحر لو نذر صوم الأبد فضعف عن الصوم لاشتغاله بالمعيشة له أن يطعم ويفطر لأنه استيقن أنه لا يقدر على القضاء (قوله العاجز عن الصوم) أي عجزا مستمرا كما يأتي، أما لو لم يقدر عليه لشدة الحر كان له أن يفطر ويقضيه في الشتاء فتح (قوله ويفدي وجوبا) لأن عذره ليس بعرضي للزوال حتى يصير إلى القضاء فوجبت الفدية نهر، ثم عبارة الكنز وهو يفدي إشارة إلى أنه ليس على غيره الفداء لأن نحو المرض والسفر في عرضة الزوال فيجب القضاء وعند العجز بالموت تجب الوصية بالفدية.(قوله ولو في أول الشهر) أي يخير بين دفعها في أوله وآخره كما في البحر۔\"

(‌‌كتاب الصوم، ‌‌فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم، 427/2، ط:سعید)

حاشية الطحطاوی على مراقي الفلاح میں ہے:

"‌وإن ‌لم ‌يوص ‌وتبرع ‌عنه ‌وليه" ‌أو ‌أجنبي "جاز" إن شاء الله تعالى لأن محمدا قال في تبرع الوارث بالإطعام في الصوم يجزئه إن شاء الله تعالى من غير جزم وفي إيصائه به جزم بالأجزاء۔قوله: "جزم بالأجزاء" لأنه بالإيصاء فرغ ذمته بخلاف ما إذا تبرع عنه مبرع وفي الحقيقة الكل معلق بمشيئة الله تعالى۔"

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌فصل في إسقاط الصلاة والصوم، ص:438، ط:دار الكتب العلمية)

آپ کےمسائل اوران کاحل میں ہے:

"سوال ... میں بیمار ہونے کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکتا، اس لئے فدیہ دینا چاہتا ہوں ، فد یہ کس حساب سے دیا جاتا ہے؟ یہ آپ بتادیں۔ اگر روزانہ مسکین کو کھانا کھلا نا ضروری ہے تو یہ سہولت مجھے میسر نہیں ہے ، اس لئے فدیہ کی کل رقم بتادیں تا کہ میں پورے روزوں کی پوری رقم مسکین کو دے سکوں ۔ اگر کوئی مستحق نہ مل سکا تو کیا یہ فدیہ کی رقم کسی یتیم خانے یا کسی فلاحی ادارے کو دے سکتے ہیں؟ فدیہ رمضان شریف میں دینا ضروری ہے یا کوئی مجبوری ہو تو رمضان گزر جانے کے بعد بھی دے سکتے ہیں؟

جواب .... ہر روزے کا فدیہ صدقہ فطر کے برابر ہے، یعنی پونے دو کلو غلہ یا اس کی قیمت ۔ فدیہ کی رقم کسی دینی مدرسہ میں بھی جمع کرادی جائے ۔ فدیہ رمضان مبارک میں ادا کرنا بہتر ہے، اگر رمضان میں ادا نہ کیا تو بعد میں بھی دیا جا سکتا ہے۔ "

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509102496

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں