ایک شخص عبد الواحد کا 3 اکتوبر 2021 کو انتقال ہوا، مرحوم کے ورثاء میں بیوہ، 3 بیٹیاں، 2 بھائی اور ایک بہن ہے، مرحوم نے زندگی میں اپنے 90 فیصد شیئر اپنی تینوں بیٹیوں کے نام بمعہ دستخط کردیے تھے، لیکن یہ صرف کاغذی طور پر تھا، بیٹیوں کو شیئر باقاعدہ قبضہ و تصرف میں نہیں دیے اور نہ اسے ان کے اکاؤنٹ میں منتقل کیا، جب کہ اپنے لیے 10 فیصد مقرر کیا، جس کے بارے میں تحریری وصیت کی کہ میرے مرنے کے بعد اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا جائے، اس کے علاوہ بھی مرحوم کا ترکہ موجود ہے، بھائی اور بہن نے اپنا حصہ معاف کردیا ہے اور وہ نہیں لینا چاہتے۔
1- مذکورہ تفصیل کی رو سے کیا شیئر بیٹیوں کی ملکیت شمار ہوں گے یا ترکہ میں تقسیم ہوں گے؟
2- کیا مرحوم کی وصیت پر عمل کیا جائے گا؟
3- مرحوم کے بھائی بہن نے اپنا حصہ جو معاف کردیا ہے، اس کی کیا حیثیت ہے؟
1- صورتِ مسئولہ میں چوں کہ مرحوم عبد الواحد نے زندگی میں اپنے شیئرز اپنی تینوں بیٹیوں کے اکاؤنٹ میں منتقل کیے بغیر ان کے محض نام کیے تھے، انہیں ان شیئرز پر قبضہ و تصرف نہیں دیا تھا، اس لیے یہ شیئرز ان کی ملکیت میں نہیں آئے، بل کہ مرحوم عبد الواحد کی ملکیت میں رہے، پھر جب اسی حالت میں اس کا انتقال ہوگیا تو اب یہ شیئرز مرحوم کا ترکہ ہیں، لہٰذا دیگر متروکہ چیزوں کے ساتھ مذکورہ شیئرز بھی مرحوم کے ورثاء کے درمیان ان کے شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوں گے۔
2- مرحوم نے اپنے لیے مقرر کردہ 10 فیصد شیئرز میں اللہ کی راہ میں صدقہ کرنے کی جو تحریری وصیت کی ہے، اس پر عمل کیا جائے گا، لہٰذا اس کے 10 فیصد شیئرز کو اللہ کی راہ میں صدقہ کیا جائے۔
3- مرحوم کے ورثاء میں سے بھائی اور بہن کا ترکہ کی تقسیم سے قبل اپنا حصہ معاف کرنے سے ان کا حصہ ختم نہیں ہوگا، اگر مرحوم کے بھائی اور بہن ترکہ میں سے اپنا حصہ نہیں لینا چاہتے تو وہ تقسیم کے بعد اپنے حصے پر قبضہ کرکے اپنا حصہ کسی ایک وارث یا ہر ایک وارث کو اس کا حصہ متعین کرکے حوالہ کردیں یا اپنے حصے کے بدلے متروکہ مال میں سے کچھ لے کر باقی چھوڑدیں، محض زبانی دستبرداری کا شرعاً اعتبار نہیں۔
مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ ان کے ترکہ میں سے ان کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد، ان پر اگر کوئی قرض ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد، انہوں نے جو جائز وصیت 10 فیصد شیئرز کو اللہ کی راہ میں صدقہ کرنے کی کی ہے، اسے نافذ کرنے کے بعد، باقی متروکہ جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کے 72 حصے کرکے مرحوم کی بیوہ کو 9 حصے، تین بیٹیوں میں سے ہر ایک کو 16 حصے، دو بھائیوں میں سے ہر ایک کو 6 حصے اور بہن کو 3 حصے ملیں گے۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
میت: 24/ 72
بیوہ | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بھائی | بھائی | بہن |
3 | 16 | 2 | 2 | 1 | ||
9 | 16 | 16 | 16 | 6 | 6 | 3 |
یعنی 100 روپے میں سے مرحوم کی بیوہ کو 12.50 روپے، تین بیٹیوں میں سے ہر ایک کو 22.222 روپے، دو بھائیوں میں سے ہر ایک کو 8.333 روپے اور بہن کو 4.166 روپے ملیں گے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وشرائط صحتها في الموهوب أن يكون مقبوضا."
(ج:5، ص:688، کتاب الھبة، ط:سعید)
وایضاً:
"بخلاف جعلته باسمك، فإنه ليس بهبة ... الخ
(قوله: بخلاف جعلته باسمك) قال في البحر: قيد بقوله: لك؛ لأنه لو قال: جعلته باسمك، لا يكون هبة؛ ولهذا قال في الخلاصة: لو غرس لابنه كرما إن قال: جعلته لابني، يكون هبة، وإن قال: باسم ابني، لا يكون هبة."
(ج:5، ص:689، کتاب الھبة، ط:سعید)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144306100002
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن