بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

شرکت صنائع میں شریک کی اجازت کے بغیر زیادہ نفع لینا


سوال

میں سعودیہ میں صالون حجامت کا کام کرتا ہوں، جس دکان میں کام کر رہا ہو 50"50 کا کام کر رہا ہوں اس دکان کا سرمایہ کسی اور شخص نے لگایا ہے، دکان  کا کرایہ اور سامان کا خرچہ وہ ہی دے رہا ہے، اس دکان کا لائسنس میرے کفیل کے نام کا ہے، جس میں لائسنس کا خرچہ آدھا وہ دے رہا ہے، آدھا میں دے رہا ہوں۔  پہلے وہ کام میرے ساتھ ہی کرتا تھا،  وہ بھی کبھی کبھی، ابھی دو سال ہوگئے ہیں سعودیہ نہیں آ رہا،  کیا میں اس کو  بتائے بغیر زیادہ خرچہ لے سکتا ہوں؟ ، اگر نہیں،  تو کیسے کر سکتا ہوں  ۔

جواب

صورت مسئولہ میں میں اگر  صالون (حجامت) کا   کام شروع کرتے وقت   آپ دونوں کے درمیان یہ معاہدہ ہوا تھا، کہ ہم دونوں کام  کریں گے، اور جو کچھ مزدوری آ ئے گی وہ آپس میں برابر،برابر  تقسیم کریں گے، تو اب  آپ شریک کی اجازت کے بغیر(پچاس فیصدسے)  زیادہ نفع نہیں لے سکتے ہیں،اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اپنے شریک سے بات چیت کرکے نئے سرے سے نفع کا تناسب طے کرلیں ،جس میں کام کرنے والے شریک کا نفع دوسرے کے بنسبت زیادہ طے کیا جاسکتا ہے ۔

الجوهرة النیرہ میں ہے:

"(قوله: وأما شركة الصنائع)، وتسمى شركة الأبدان، وشركة الأعمال، وشركة التقبل. (قوله: فالخياطان والصباغان يشتركان على أن يتقبلا الأعمال ويكون الكسب بينهما فيجوز ذلك)،  وسواء اتفقت أعمالهم، أو اختلفت فالشركة جائزة كالخياطين، والإسكافين، أو أحدهما خياط، والآخر إسكاف، أو صباغ.....(قوله: فإن عمل أحدهما دون الآخر فالكسب بينهما نصفان) سواء كانت عنانا، أو مفاوضة فإن شرطا التفاضل في الربح حال ما تقبلا جاز، وإن كان أحدهما أكثر عملا من الآخر؛ لأنهما يستحقان الربح بالضمان فما حصل من أحدهما من زيادة عمل فهو إعانة لصاحبه".

(الجوهرة النيرة: كتاب الشركة، شركة الأبدان (1/ 289)، ط. المطبعة الخيرية، الطبعة الأولى:1322هـ)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: وكسب أحدهما بينهما)، يعني:  إذا عمل أحدهما دون الآخر قسم الأجر بينهما على ما شرطا، أما العامل فظاهر، وأما غيره فلأنه لزمه العمل بالتقبل، فيكون ضامنا له، فيستحقه بالضمان، وهو لزوم العمل. وعلَّله في البزازية بأن العامل معين القابل؛ لأن الشرط مطلق العمل لا عمل القابل؛ ألا ترى أن القصار إذا استعان بغيره أو استأجره استحق الأجر. اهـ."

(البحر ارائق: كتاب الشركة (5/ 195)، ط. دار الكتاب الإسلامي، الطبعة  الثانية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو أن رجلا أجلس في دكانه رجلا يطرح عليه العمل بالنصف، فالقياس أن لا تجوز هذه الشركة؛ لأنها شركة العروض؛ لأن من أحدهما العمل ومن الآخر الحانوت، والحانوت من العروض، وشركة العروض غير جائزة، وفي الاستحسان جائزة؛ لأن هذه شركة الأعمال؛ لأنها شركة التقبل، وتقبل العمل من صاحب الحانوت عمل، وشركة الأعمال جائزة بلا خلاف بين أصحابنا؛ لأن مبناها على الوكالة، والوكالة على هذا الوجه جائزة بأن يوكل خياط أو قصار وكيلا يتقبل له عمل الخياطة والقصارة، وكذا يجوز لكل صانع يعمل بأجر أن يوكل وكيلا يتقبل العمل ".

(بدائع الصنائع: كتاب الشركة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة (6/ 64)، ط. دار الكتب العلمية، الطبعة الثانية: 1406هـ = 1986م)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100572

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں