ایک شخص کو دوسرے نے رقم مثلًا دس لاکھ روپے دیےکاروبار کے لیے اس شرط پر کہ نفع کی صورت میں وہ صاحبِ مال کو ہر ماہ ایک متعین رقم ادا کرے گا اور نقصان کی صورت میں اس کا کل مال محفوظ رہے گا،یعنی کہ وہ اسے اس کی پوری رقم واپس کرے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ اس کایہ عمل جائز ہے یا نہیں؟
وضاحت:کاوبار ،ایزی پیسہ اور جاز کیش کا ہے جس کی مد میں یہ رقم استعمال کی جاتی ہے۔
یاد رہے کہ اس معاملے میں دونوں فریق اور دونوں شخصوں کے پیسے مشترک ہیں۔
کسی کے ساتھ کاروبار میں رقم لگاکر نفع کو متعین کردینا مثلاً یہ کہناکہ فلاں شریک کو ہر مہینے نفع کے طور پر اتنی رقم دی جائے گی اور اس کا سرمایہ ہرحال میں محفوط رہے گا تو یہ طریقہ سود کے زمرے میں ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، لیکن اگر کاروبار میں سے حاصل ہونے والے منافع کا فیصد طے کیا جائے کہ مثلًا نفع کا اتنا فیصد ایک شریک کا ہوگا اور اتنا فیصد دوسرے شریک کا ہوگا تو یہ سود کے زمرے میں نہیں آئے گا اور اس طرح نفع کا تناسب طے کرنا جائز، بلکہ لازم ہے۔ نیز شرکت میں نقصان ہونے کی صورت میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ ہر شریک کا نقصان اُس کے مال کے تناسب سے ہوگا، یعنی جتنے فیصد کسی کی سرمایہ کاری ہے ، اتنے ہی فیصد وہ نقصان میں حصہ دار ہوگا ،کسی شریک کے نقصان میں شریک نہ ہونے کی شرط لگانا شرعًا ناجائز ہے ۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"(ومنها) : أن يكون الربح جزءًا شائعًا في الجملة، لا معينًا، فإن عينا عشرةً، أو مائةً، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدةً؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لايحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلايتحقق الشركة في الربح."
( کتاب الشرکة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة،ج، 59،6، ص،ط،دارالکتب العلمیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512100331
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن