1) میں نے اپنی اہلیہ سے دو مرتبہ یہ الفاظ کہے کہ " مجھے قسم ہے اور تیسری مرتبہ یہ کہا کہ: مجھے قرآن مجید کے تیس پاروں کی قسم ہے کہ میں آج کے بعد آپ کو ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا اور قریب بھی نہیں آؤں گا۔
(2) اللہ جل جلالہ کے علاوہ کوئی بھی قسم اٹھانا جائز ہے یا نہیں ؟
3) اگر جائز ہے تو مذکورہ صورت حال میں کفارہ کیا ہو گا؟
صورتِ مسئولہ میں سائل نے اپنی بیوی کو جو یہ کہا ہے کہ : ” مجھے قسم ہے، مجھے قسم ہے، مجھے قرآن مجید کے تیس پاروں کی قسم ہے کہ میں آج کے بعد آپ کو ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا اور قریب بھی نہیں آؤں گا“ یہ بیوی کے قریب نہ آنے کی قسم کھانے کو شرعاً "ایلاءِ " کہاجاتا ہے،اس کا حکم یہ ہے کہ اس قسم اٹھانے کے بعد اگر سائل نے چار ماہ کے اندر اپنی بیوی سے ازدواجی تعلق قائم کرلیا تو قسم ٹوٹ جائے گی اور اس قسم کا کفارہ ادا کرنا لازم ہوگا اور ”ایلاء“ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔
اور اگر سائل نے چارماہ تک قسم نہیں توڑی تو اس کی بیوی پر چار ماہ گزرنےسے ایک طلاق بائن واقع ہو جائے گی اور قسم باقی رہے گی، پھر اگر سائل نے بیوی سے دوبارہ نکاح کر لیا اور اس کے بعدچار ماہ کے اندر ازدواجی تعلق قائم کرلیا تو قسم ٹوٹ جائے گی اور اسے اس قسم کے توڑنے کا کفارہ دینا ہوگا، اور ایلاء ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا،لیکن اگر اس نے پھر چار ماہ تک ازدواجی تعلق قائم نہیں کیا تو اس کی بیوی پر دوسری طلاق بائن واقع ہوجائے گی اور اگر اس نے اس سے پھر تیسری مرتبہ نکاح کر لیا تو پھر اسی طرح ہوگا یعنی اگر اس نے چار ماہ سے پہلے مقاربت کرلی تو ٹھیک ، صرف قسم کا کفارہ دینا ہوگا، ورنہ چار ماہ بعد پھر اس کی بیوی پر طلاق بائن پڑجائے گی اور آئندہ کے لئے نکاح کی گنجائش نہیں رہے گی۔ لہذا سائل کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی سے چار ماہ کے اندر تعلّق قائم کرلے اور قسم کا کفارہ ادا کردے۔
قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت کھانا کھلائیں، یا دس مسکینوں کو صدقہ فطر کی مقدار دے دیں، یا ایک ہی غریب کو دس روز تک روزانہ ایک صدقہ فطر کی مقدار دیں، یا دس غریبوں کو پہننے کا جوڑا (لباس) دیں۔ اگر مذکورہ صورتوں میں سے کسی کی استطاعت نہیں ہے تو پھر تین دن روزے رکھیں۔
2: بلاضرورت قسم کھانا پسندیدہ عمل نہیں ہے، اگر کوئی ضرورت یا مجبوری ہو، تو صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کے نام کی ہی قسم اٹھانا جائز ہے، غیراللہ کی قسم کھانا جائز نہیں ہے، البتہ قرآنِ کریم کلامِ الٰہی ہے، اور اللہ کا کلام اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے؛ اس لیے "قرآن کی قسم" کے الفاظ سے قسم اٹھانے سے قسم منعقد ہوجاتی ہے۔
3: کفارہ کی تفصیل اوپر ذکر کردی گئی ہے ۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"الإيلاء منع النفس عن قربان المنكوحة منعا مؤكدا باليمين بالله أو غيره من طلاق أو عتاق أو صوم أو حج أو نحو ذلك مطلقا أو مؤقتا بأربعة أشهر في الحرائر وشهر في الإماء من غير أن يتخللها وقت يمكنه قربانها فيه من غير حنث كذا في فتاوى قاضي خان فإن قربها في المدة حنث وتجب الكفارة في الحلف بالله سواء كان الحلف بذاته أو بصفة من صفاته يحلف بها عرفا وفي غيره الجزاء ويسقط الإيلاء بعد القربان وإن لم يقربها في المدة بانت بواحدة كذا في البرجندي شرح النقاية.
فإن كان حلف على أربعة أشهر فقد سقطت اليمين وإن كان حلف على الأبد بأن قال: والله لا أقربك أبدا أو قال: والله لا أقربك ولم يقل أبدا فاليمين باقية إلا أنه لا يتكرر الطلاق قبل التزوج فإن تزوجها ثانيا عاد الإيلاء فإن وطئها وإلا وقعت بمضي أربعة أشهر طلقة أخرى ويعتبر ابتداء هذا الإيلاء من وقت التزوج فإن تزوجها ثالثا عاد الإيلاء ووقعت بمضي أربعة أشهر طلقة أخرى إن لم يقربها كذا في الكافي فإن تزوجها بعد زوج آخر لم يقع بذلك الإيلاء طلاق واليمين باقية فإن وطئها كفر عن يمينه كذا في الهداية.
ولو بانت بالإيلاء مرة أو مرتين وتزوجت بزوج آخر وعادت إلى الأول عادت إليه بثلاث تطليقات وتطلق كلما مضى أربعة أشهر حتى تبين منه بثلاث تطليقات فكذا في الثاني والثالث إلى ما لا يتناهى كذا في التبيين."
(كتاب الطلاق، الباب السابع في الإيلاء، 1/ 476، ط:رشیدیۃ)
فتاوی شامی میں ہے :
"(لا) يقسم (بغير الله تعالى كالنبي والقرآن والكعبة) قال الكمال: ولايخفى أن الحلف بالقرآن الآن متعارف فيكون يمينًا.
و في الرد : (قوله: لايقسم بغير الله تعالى) عطف على قوله والقسم بالله تعالى: أي لاينعقد القسم بغيره تعالى أي غير أسمائه وصفاته ولو بطريق الكناية كما مر، بل يحرم كما في القهستاني، بل يخاف منه الكفر في نحو وحياتي وحياتك كما يأتي.
مطلب في القرآن:
(قوله: قال الكمال إلخ) مبني على أن القرآن بمعنى كلام الله، فيكون من صفاته تعالى كما يفيده كلام الهداية حيث قال: ومن حلف بغير الله تعالى لم يكن حالفا كالنبي والكعبة، لقوله عليه الصلاة والسلام: "من كان منكم حالفًا فليحلف بالله أو ليذر"، وكذا إذا حلف بالقرآن؛ لأنه غير متعارف اهـ. فقوله: "وكذا" يفيد أنه ليس من قسم الحلف بغير الله تعالى، بل هو من قسم الصفات، و لذا علله بأنه غير متعارف، ولو كان من القسم الأول كما هو المتبادر من كلام المصنف والقدوري لكانت العلة فيه النهي المذكور أو غيره؛ لأن التعارف إنما يعتبر في الصفات المشتركة لا في غيرها. وقال في الفتح: وتعليل عدم كونه يمينًا بأنه غيره تعالى؛ لأنه مخلوق؛ لأنه حروف وغير المخلوق هو الكلام النفسي منع بأن القرآن كلام الله منزل غير مخلوق. ولايخفى أن المنزل في الحقيقة ليس إلا الحروف المنقضية المنعدمة، وما ثبت قدمه استحال عدمه، غير أنهم أوجبوا ذلك؛ لأن العوام إذا قيل لهم: إن القرآن مخلوق تعدوا إلى الكلام مطلقًا. اهـ. وقوله: ولايخفى إلخ رد للمنع.
وحاصله: أن غير المخلوق هو القرآن بمعنى كلام الله الصفة النفسية القائمة به تعالى لا بمعنى الحروف المنزلة غير أنه لايقال: القرآن مخلوق لئلايتوهم إرادة المعنى الأول. قلت: فحيث لم يجز أن يطلق عليه أنه مخلوق ينبغي أن لايجوز أن يطلق عليه أنه غيره تعالى بمعنى أنه ليس صفة له؛ لأن الصفات ليست عينًا ولا غيرًا كما قرر في محله، ولذا قالوا: من قال بخلق القرآن فهو كافر. ونقل في الهندية عن المضمرات: وقد قيل هذا في زمانهم، أما في زماننا فيمين وبه نأخذ ونأمر ونعتقد. وقال محمد بن مقاتل الرازي: إنه يمين، وبه أخذ جمهور مشايخنا اهـ فهذا مؤيد لكونه صفة تعورف الحلف بها كعزة الله وجلال".
(کتاب الأیمان،3/ 712، ط:سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144607101282
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن