بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر 2 بیٹوں اور 3 بیٹیوں میں وراثت کی تققسیم


سوال

کل رقبہ سات ایکڑ تین کنال زمین ہے، ورثاء میں  شوہر، دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، اس وراثت کی تقسیم کیسے ہو گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں (اگر مرحومہ کے والدین  یا ان میں سے کوئی ایک بھی زندہ نہیں تو)مرحومہ کے ذمہ اگر قرضہ ہے تو کل ترکہ سے ادا کرنے کے بعد، اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہے تو اسے باقی مال کے ایک تہائی ترکہ سے نافذ کرنے کے بعد باقی ترکہ (منقولہ و غیر منقولہ) کے کل 28 حصے کر کے 7 حصے شوہر کو، 6، 6 حصے ہر ایک بیٹے کو اور 3، 3 حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے، اور کفن دفن کا خرچہ شوہر کے ذمہ ہے۔

صورت ِتقسیم یہ ہے:

میت(والدہ):4/ 28

شوہربیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹی
13
766333

یعنی کل ترکہ  میں سے 25 فی صد حصہ شوہر کو، 21.428571 فی صد حصہ ہر ایک بیٹے کو اور 10.714286 فی صد حصہ ہر ایک بیٹی کو ملے گے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(واختلف في الزوج والفتوى على وجوب كفنها عليه) عند الثاني (وإن تركت مالا) خانية ورجحه في البحر بأنه الظاهر لأنه ككسوتها۔۔۔

مطلب في كفن الزوجة على الزوج

اعلم أنه اختلفت العبارات في تحرير قول أبي يوسف ففي الخانية والخلاصة والظهيرية: أنه يلزمه كفنها، وإن تركت مالا وعليه الفتوى وفي المحيط والتجنيس والواقعات وشرح المجمع لمصنفه إذا لم يكن لها مال فكفنها على الزوج وعليه الفتوى۔۔۔والذي اختاره في البحر لزومه عليه موسرا أو لا لها مال أو لا لأنه ككسوتها وهي واجبة عليه مطلقا قال: وصححه في نفقات الولوالجية.

قلت: وعبارتها إذا ماتت المرأة، ولا مال لها قال أبو يوسف: يجبر الزوج على كفنها، والأصل فيه أن من يجبر على نفقته في حياته يجبر عليها بعد موته، وقال محمد: لا يجبر الزوج والصحيح الأول."

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، 2/ 206، ط: سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144510101447

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں