بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

شوہر، ایک بھائی اور ایک بہن میں ترکہ کی تقسیم/ متروکہ جائیداد کا کرایہ ورثاء میں مشترک ہے


سوال

جب میری شادی طے ہوئی تو اس شرط پر طے ہوئی کہ میرے سسرال والے مجھے ایک مکان بطور تحفہ دیں گے، جو انہوں نے میری بیگم کو جہیز میں دیا اور شادی کے بعد کافی عرصے تک ہم اسی مکان میں رہتے رہے، پھر ہم نے مکان تبدیل کر لیا تو کافی عرصہ وہ مکان خالی پڑا رہا پھر میری بیگم کی طبیعت کافی خراب ہو گئی تو ان کے بھائی نے مجھ سے کہا کہ جو مکان خالی پڑا ہے، اس کو کرائے پر دے دو اور آنے والے کرائے سے بیگم کا علاج کراؤ، تو میں نے اسی طرح کیا۔ پھر اسی بیماری میں میری بیگم کا سن 2023ء میں انتقال ہو گیا اور انتقال کے بعد میں اسی ترتیب پر کرایہ لیتا رہا اور میرے سالے نے مجھ سے کرائے کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔

اب اکتوبر سن 2024ء سے میرا سالہ مجھ سے اس کرائے کا مطالبہ کر رہا ہے، جو بیگم کے انتقال کے بعد سے اب تک میں نے وصول کیا ہے۔وہ کرایہ تقریبا 12 ہزار روپے ماہانہ کے حساب سے میں لے رہا تھا۔ مجھے پوچھنا یہ ہے کہ میرے سالے ہارون صاحب کا مجھ سے مذکورہ مطالبہ درست ہے؟ جبکہ ہارون صاحب نے ابھی گھر فروخت ہونے کے بعد مجھے میری بیگم کی میراث میں سے کوئی حصہ نہیں دیا۔ میری بیگم کے ورثاء میں شوہر یعنی میں ایک بھائی ہارون اور ایک بہن ہے۔ گھر فروخت کرتے وقت ہارون صاحب نے مجھ سے گھر کے کاغذات پر یہ کہہ کر دستخط لیے تھے کہ آپ کا جتنا حصہ بنتا ہے، آپ کو دے دوں گا، مگر اب تک انہوں نے مجھے کوئی حصہ نہیں دیا۔ فلیٹ 40 لاکھ روپے کا فروخت ہوا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کی مرحومہ بیوی کو جہیز میں جو مکان ملا تھا، مرحومہ کے انتقال کے بعد وہ مکان اس کی میراث ہے اور انتقال کے بعد جتنا کرایہ حاصل ہوا ہے وہ بھی اس کی میراث ہے، اس لیے سائل نے مرحومہ بیوی کے متروکہ مکان سے جو کرایہ اس کی فروختگی تک وصول کیا ہے، اس میں مرحومہ کے ورثاء مندرجہ ذیل تقسیم کے حساب سے شریک ہیں، نیز متروکہ مکان کے عوض جو رقم (چالیس لاکھ روپے) مرحومہ کے بھائی نے وصول کی ہے، وہ بھی ورثاء میں حسبِ ذیل تقسیم کی جائے گی۔

مرحومہ کی متروکہ جائیداد کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اگر مرحومہ پر کوئی قرض ہو، تو ا س کی ادائیگی کے بعد،  اور اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے باقی مال کے ایک تہائی میں سے نافذ کرنے کے بعد باقی کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو كل 6 حصوں میں تقسیم کر کے  3 حصے مرحومہ کے شوہر (سائل) کو ملیں گے، 2 حصے مرحومہ کے بھائی کو اور ایک حصہ بہن کو ملے گا۔ باقی مرحومہ کے کفن دفن کے اخراجات شوہر کے ذمہ ہیں۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

مرحومہ (سائل کی بیوی):6/2

شوہربھائیبہن
11
321

فیصد کے اعتبار سے ٪50 مرحومہ کے شوہر (سائل) کو،  ٪33.33 مرحومہ کے بھائی کو اور ٪16.66 بہن کو ملے گا۔

لہذا مرحومہ کے بھائی (ہارون) سائل سے کرایہ میں اپنے حصے کا مطالبہ کر سکتے ہیں اور سائل پر اس کی ادائیگی لازم ہے۔ نیز مرحومہ کے بھائی (ہارون) پر بھی لازم ہے کہ مکان کے عوض حاصل شدہ رقم مذکورہ بالا تقسیم کے حساب سے مرحومہ کے شوہر اور مرحومہ کی بہن کو ادا کریں۔ حدیث مبارک میں آتا ہےکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ”خبردار ظلم مت کرنا! جان لو! کسی بھی دوسرے شخص کا مال (لینا یا استعمال کرنا) اس کی مرضی وخوشی کے بغیر حلال نہیں ہے“۔ دوسری حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص(کسی کی ) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی“۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا لا تظلموا ألا ‌لا ‌يحل ‌مال ‌امرئ إلا بطيب نفس منه» . رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى."

(باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج:2، ص:889، ط: المکتب الاسلامی)

وفیه أیضاً:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبرا من الأرض ظلما فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين."

(کتاب البیوع، كتاب الغصب والعارية، ج:2، ص:887، ط: المکتب الاسلامی)

فتاوی  ہندیہ میں ہے:

"یجب الکفن علی الزوج وإن ترکت مالاً وعلیه الفتویٰ".

(کتاب الصلاۃ،  الباب الحادي والعشرون في الجنائز، ج:1، ص:161، ط: دار الفکر)

درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم. فلذلك إذا شرط لأحد الشركاء حصة أكثر من حصته من لبن الحيوان المشترك أو نتاجه لا يصح) ‌تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة؛ لأن نفقات هذه الأموال هي بنسبة حصصهما، انظر المادة (۱۳۰۸) وحاصلاتها أيضا يجب أن تكون على هذه النسبة؛ لأن الغنم بالغرم بموجب المادة (۸۸) ............. إيضاح بدل الإيجار: لو أجر الشركاء الحانوت المشترك بينهم لآخر فيجب تقسيم بدل الإيجار بينهم حسب حصصهم في الحانوت."

(الكتاب العاشر الشركات، الفصل الثاني، ج:3، ص:26،27، ط: دار الجيل)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144604101545

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں