بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر گناہ میں مبتلا ہو تو کیا کرنا چاہیے...


سوال

میری شادی کو تقریباً نو (9)  سال ہو گئے ہیں، میرے دو بچے ہیں، بیٹی پانچ سال کی ، جب کہ بیٹا ڈھائی سال کا ہے، میرا شوہر مجھے ذاتی خرچہ نہیں دیتا، صرف گھر کے راشن کا خرچہ دیتا ہے، اور میں اپنے والدین کے ایک گھر میں رہائش پذیر ہوں، شوہر ہم جنس پرستی میں دل چسپی رکھتا ہے، اور مجھ سے بے رغبت ہو گیا ہے، وہ ایک لڑکے سے اس طرح کی بات کرتے ہوئے پکڑا بھی گیا ہے، جو انتہائی نازیبا باتیں ہیں، جن کے اسکرین شارٹ بطورِ ثبوت میرے پاس موجود ہیں، جب میرے گھر والوں نے اس بارے میں ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہاں میں نے بات کی ہے، مگر یہ سب مذاق کی حد تک تھا ، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اور جب میں نےا پنی ساس اور سسر سے بات کی تو انہوں نےکہا کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں، آج کل تو لڑکے پتا نہیں  کن کن چیزوں میں پڑے ہوتے ہیں، مطلب تنبیہ کرنے کی بجائے اپنے بیٹے  کی طرف داری شروع کر دی،اور الٹا مجھ پر بھی بد کردار ہونے کا الزام لگادیاہے، میرا شوہر ڈپریشن کا مریض بھی ہے، اس کے لیے وہ دوائی بھی لیتا ہے ، اب مجھے اس معاملے میں دینی راہ نمائی  چاہیے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے والدین اپنی بچی کے سسرال کے بڑے حضرات  کے  ساتھ  مل بیٹھ کر مصالحت کی صورت پیدا کریں، اور اگر شوہر کے بارے میں سائلہ کا دعویٰ سچا ہے تواس  کے   شوہر کو سمجھائیں کہ اس فعل بد کے بارے میں قرآن و سنت میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، سابقہ امتوں میں سے ایک امت کو اسی بد کرداری کی وجہ سے اتنا سخت عذاب دیا گیا تھا  کہ ان کی پوری بستی آسمان کی طرف اٹھا کر واپس پٹخی گئی تھی، اور اوپر سے پتھر بھی برسائے گئے تھے۔

اور   اگر سائلہ کے شوہر نے بدفعلی نہیں کی ہے، یا وہ توبہ کرکے اِصلاحِ اَحوال کے ساتھ نباہ چاہتا ہے تو سائلہ کو چاہیے کہ اپنا گھر اور بچوں کا مستقبل ضائع کرنے کی بجائے اسی شوہر کے ساتھ نباہ  رکھے، اور شوہر کے لیے دعا کا بھی اہتمام کرے۔ اور اگر شوہر کسی بیماری یا کمزوری کی وجہ سے بے رغبت  ہوگیا ہے تو  ان  کے گھر والے علاج کا انتظام کریں۔

اور سائلہ کی ساس کو چاہیے کہ بے جاالزامات سے گریز کرے؛ بہتان تراشی انتہائی سخت گناہ ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَماً مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَماً مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلاحاً يُوَفِّقْ اللَّهُ بَيْنَهُمَا"                    (النساء:35)

"(ترجمہ)اور اگر تم ڈرو کہ دونوں آپس میں ضد رکھتےہیں تو کھڑا کرو ایک منصف مرد والوں میں سے اور ایک منصف عورت والوں میں سے اگر یہ  دونوں چاہیں گے کہ صلح کر دیں تو اللہ موافقت کر دے گا ان دونوں میں (تفسیر عثمانی)"

وفیه أیضاً:

" فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِنْ سِجِّيلٍ مَنْضُودٍ مُسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ وَمَا هِيَ مِنْ الظَّالِمِينَ بِبَعِيدٍ"                 (ھود:82،83)

”(ترجمہ)سو جب ہمارا حکم (عذاب کے لیے) آپہنچا تو ہم نے اس زمین (کو الٹ کر  اس) کا اوپر کا تختہ تو نیچے کر دیا اور اس زمین پر کھنگر کے پتھر برسانا شروع کیے جو لگا تار گر رہےتھے۔ جن پر آپ کے رب کے پاس (یعنی عالم غیب میں) خاص نشان بھی تھا اور یہ بستیاں (قوم لوط کی) ان ظالموں سے کچھ دور نہیں ہیں۔(بیان القرآن)“

وفیه أیضاً:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيراً مِنْ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلا تَجَسَّسُوا(الحجرات:12)"

”(ترجمہ)اے ایمان والو بہت سے گمنون سے بچا  کرو کیوں کہ بعضے گمان گناہ ہوتے ہیں اور سراغ مت لگایا کرو(بیان القرآن)“

"الترغيب والترهيب  للأصبهاني"میں ہے:

"قال النبي صلى الله عليه وسلم:لما عرج بي مررت بقوم لهم أظفار من نحاس يخمشون وجوههم وصدورهم فقلت: من هؤلاء يا جبريل؟قال: هؤلاء الذين يأكلون لحوم الناس ويقعون في أعراضهم"

(باب الباء، ‌‌باب في الترهيب من البهتان والغيبة، 1/ 346، ط:دار الحدیث القاھرۃ)

”(ترجمہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مجھے (معراج کی رات) اوپر (آسمانوں پر ) لے جایا گیا تو میں ایک قوم کے پاس سے گزرا جن کے تانبے کے ناخن تھے جن سے وہ اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے اور خراشیں لگا رہے تھے، تو میں نے پوچھا کہ اے جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟ تو (جبریل نے) فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں (غیبت کر کے گویا) لوگوں کا (کچا) گوشت کھاتے تھے، اور لوگوں (پر جھوٹی تہمتیں لگا کر) ان کی عزتیں داغ دار بناتے تھے“

فقط والله اَعلم


فتوی نمبر : 144511101992

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں