بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا بیوی کی طرف سے رمی کرنا


سوال

میرا شوہر میری  طرف سے رمی کرسکتا ہے ؟

جواب

حج میں رمیِ جمار واجب ہے، اور رمی کرنے میں ضروری یہ ہے کہ بذاتِ خود رمی کی جائے، بلا عذرِ شرعی کسی اور سے نہ کروائی جائے،  البتہ اگر عذر ہو تو  حاجی دوسرے شخص کو اپنی طرف سے رمی کے لیے نائب مقرر کرسکتا ہے۔  عذر سے مراد یہ ہے کہ اتنا بیمار ہو کہ کھڑے ہوکر نماز پڑھنامشکل ہو، جمرات تک پہنچنا مشکل ہو، جمرات تک جانے میں بیماری بڑھنے کا اندیشہ ہو، تو اس صورت میں کسی دوسرے شخص کی طرف سے رمی کی جاسکتی ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر عورت رمی کرنے سے عاجز ہو تب تو اس کا شوہر اس کی طرف سے رمی کرسکتا ہے، ورنہ عورت کا خود رمی کرنا ضروری ہے۔ 

غنیۃ الناسک میں ہے:

''السادس: أن یرمي بنفسه، فلا تجوز النیابة فیه عند القدرة. و الرجل و المرأة في الرمي سواء، إلا أن رمیها في اللیل أفضل، فلاتجوز النیابة عن المرأة بغیر عذر. وتجوز عند العذر، فلو رمی عن مریض بأمره أو مغمی علیه و لو بغیر أمره أو صبي أو معتوه أو مجنون جاز۔۔۔۔وحد المريض أن يصير بحيث يصلى جالسا ؛ لأنه لا يستطيع الرمي راكبا، ولا محمولا ، أما لأنه تعذر عليه الرمي، أو يلحقه بالرمى ضرر، فإن كان مريض له قدرة على حضور المرمى محمولا ، ويستطيع الرمي كذلك من غير أن يلحقه ألم شديد، ولا يخاف زيادة المرض، ولا بطء البرء لا يجوز النيابة عنه إلا أن لا يجد من يحمله."

(فصل في شرائط الرمي، ص:187، ط: ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ،کراتشی)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وسواء رمى ‌بنفسه أو بغيره عند عجزه عن الرمي ‌بنفسه كالمريض الذي لا يستطيع الرمي فوضع الحصى في كفه فرمى بها أو رمى عنه غيره؛ لأن أفعال الحج تجري فيها النيابة كالطواف والوقوف بعرفة ومزدلفة، والله أعلم."

(کتاب الحج، واجبات الحج، ج:2، ص:137، ط: دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512100760

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں