بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے نان نفقہ نہ دینے اور ظلم کی بنیاد پر فسخِ نکاح کا حکم


سوال

میری شادی کو تقریباً بیس سال ہو چکے ہیں۔ ان بیس سالوں میں ابتدائی پانچ سال میں اپنے میکے ہی میں رہی۔ پھر رخصتی ہوئی تو میرے شوہر نے میرے ساتھ صرف سولہ ماہ گزارے، اس کے بعد وہ بیرونِ ملک چلے گئے۔ دس سال کے بعد وہ اکیس دن کے لیے آئے، پھر واپس چلے گئے۔ پانچ سال کے بعد دو ماہ کے لیے دوبارہ آئے، اور اب چار سال ہو چکے ہیں کہ وہ دوبارہ بیرونِ ملک چلے گئے ہیں۔ پچھلے چھ مہینے سے انہوں نے میرا نان و نفقہ بھی بند کر رکھا ہے۔ اب انہوں نے وہاں دوسری شادی کر لی ہے اور نامحرم عورتوں سے بات چیت بھی جاری رکھتے ہیں۔

2021 میں ہمارے درمیان کچھ جھگڑا ہوا، تو میرے بھائی کے سامنے انہوں نے کہا: "میں تجھے طلاق دیتا ہوں"۔ بعد میں انہوں نے رجوع کر لیا تھا۔ اب میری کیفیت یہ ہے کہ میں ان کے ساتھ مزید زندگی نہیں گزارنا چاہتی، کیونکہ نہ وہ نان و نفقہ دیتے ہیں، نہ میرے ساتھ زندگی گزارتے ہیں،بلکہ ساری عمر انہوں نے باہر گزاری ہے اور دوسری عورتوں سے شادیاں بھی کر بیٹھے ہیں۔ انہوں نے مجھے کوئی اولاد بھی نہیں دی۔ وہ اب بھی کہتے ہیں کہ: اب بھی وقت  ہے، مگر میں مزید اس تعلق کو نبھانے پر راضی نہیں ہوں۔ میں ان سے طلاق مانگتی ہوں، مگر وہ نہ طلاق دیتے ہیں، نہ ساتھ رکھتے ہیں۔

اب میرا سوال یہ ہے کہ: شریعت میں میرے لیے اس نکاح سے خلاصی کی کیا صورت ہے؟ کیا میں اس نکاح کو فسخ کروا سکتی ہوں؟ اور اس کا کیا طریقہ ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائلہ کا شوہر نہ تو اسے اپنے ساتھ رکھ رہا ہو، اور نہ ہی کسی طرح طلاق دینے پر آمادہ ہو، تو عورت کے لیے یہ گنجائش موجود ہے کہ وہ شوہر کو کچھ مال وغیرہ دے کر باہمی رضامندی سے خلع کا معاملہ کرے۔

اگر شوہر خلع پر بھی راضی نہ ہو، جبکہ سائلہ اس سے رشتۂ ازدواج ختم کرنا چاہتی ہو، تو وہ شوہر کی جانب سے نان و نفقہ کی عدم ادائیگی کی بنیاد پر مسلم عدالت میں تنسیخِ نکاح کا مقدمہ دائر کر سکتی ہے۔

اس کے لیے ضروری ہوگا کہ سائلہ پہلے شرعی گواہوں کے ذریعے اپنے نکاح کو ثابت کرے، پھر شوہر کی طرف سے  نان و نفقہ کی عدم ادائیگی کو بھی شرعی شہادت کے ساتھ ثابت کرے۔

اس کے بعد قاضی شرعی شہادت کی بنیاد پر مکمل تحقیق کرے گا۔ اگر عورت کا دعویٰ درست ثابت ہو جائے کہ شوہر وسعت کے باوجود حقوق ادا نہیں کر رہا، تو قاضی شوہر کو عدالت میں پیش ہونے کا سمن جاری کرے گا۔

اگر شوہر عدالت میں حاضر ہو کر گھر بسانے پر آمادہ ہو جائے، تو بہتر؛ لیکن اگر وہ حاضر نہ ہو، یا حاضر ہو کر بھی حقوق ادا کرنے پر آمادہ نہ ہو، تو عدالت نکاح کو فسخ کر سکتی ہے۔

فسخِ نکاح کے بعد عورت عدت گزار کر دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔

الاختيار لتعليل المختار میں ہے :

"الخلع:وهو أن تفتدي المرأة نفسها بمال ليخلعها به، فإذا فعلا لزمها المال ووقعت تطليقة بائنة.

قال: (وهو أن تفتدي المرأة نفسها بمال ليخلعها به، فإذا فعلا لزمها المال ووقعت تطليقة بائنة) والأصل في جوازه قوله تعالى: {فإن خفتم ألا يقيما حدود الله فلا جناح عليهما فيما افتدت به} [البقرة: 229] ، وإنما تقع تطليقة بائنة لقوله عليه الصلاة والسلام: «الخلع تطليقة بائنة»."

( کتاب الطلاق،‌‌باب الخلع، ج:3، ص:156، ط:دار الكتب العلمية)

حیلہ ناجزۃ میں ہے :

"وأما المتعنت الممتنع عن الإنفاق ففي مجموع الأمير مانصه:إن منعها نفقة الحال فلها نفقة القيام فإن لم يثبت عسره أنفق أو طلق وإلا طلق عليه.قال محشيه قوله:وإلا طلق أي طلق عليه الحاكم من غير تلوم إلي أن قال:وإن تطوع بالنفقة قريب أوأجنبي فقال ابن القاسم لها أن تفارق لأن الفراق قد وجب لها.وقال ابن عبدالرحمن لا مقال لها لأن سبب الفراق هو عدم النفقة قد انتهي وهو الذي تقضيه المدونة كما قال ابن المناصف."

(فصل فی حکم زوجة المتعنت:،ص:73،ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144610100467

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں