بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے ذمہ مہر مسمی کی ادائیگی کرنا لازم ہے


سوال

میرا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے،کرایہ کے مکان میں رہتا ہوں اور بمشکل اپنی اور اپنے اہل و عیال کی روزمرہ کی ضرورتیں پوری کرتا ہوں،  میں نے اپنے بیٹے کا ایک جگہ رشتہ طے کیا،  لڑکی والوں کی مالی حیثیت ہماری جیسی ہے،  رشتے کے وقت لڑکی کے سرپرستوں نے ہم سے مطالبہ کیا کہ ہم لڑکی کی شادی کے لیے دو تولہ سونے کے زیورات بنوائیں گے، اس مطالبے کو ہم نے بددلی سے قبول کیا، کیوں کہ ہماری مالی حیثیت کمزور تھی،  لڑکی کے والدین نے اس مطالبے کا اصرار نہیں کیا،  بل کہ دوسرے سرپرستوں نے یہ بات کی تھی، لڑکی عالمہ بن رہی تھی،  اس کی ختم بخاری کے وقت بیٹے سے نکاح کا طے ہوا  تھا،  نکاح کے وقت لڑکی والوں نے دو تولہ سونے کے زیورات کو بطور حق مہر لکھوا دیا،  کافی کوششوں کے باوجود کہیں سے پیسوں کا انتظام نہیں ہو رہا،  جس سے سونا خرید کر حق مہر ادا کیا جائے اور لڑکی کی رخصتی کا مطالبہ کیا جائے،  ہم نے منگنی کے وقت لڑکی کو سونے کی انگوٹھی دی تھی،  اب بمشکل اتنا انتظام ہو سکتا ہے کہ آدھا تولہ  سونے کی  کانوں کے  بُندے بنا لئے جائیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر ہم کسی سے ادھار سونے کا سیٹ جس کا وزن بُندے اور انگوٹھی کے ساتھ ملا کر دو تولہ ہو جائے،  حق مہر کے طور پر ادا کر کے رخصتی کر سکتے ہیں؟ شادی کے بعد ادھار والے سونے کے سیٹ کو لڑکی کی رضامندی سے اس کے مالک کو واپس کر دیا جائے گا؟کیا ایسی صورت میں حق مہر کی ادائیگی میں شرعی لحاظ سے کوئی قباحت تو نہیں؟سونے کے سیٹ کے معاملے کا لڑکی کو رخصتی سے پہلے بتانا چاہیے یا رخصتی کے بعد؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت نے زوجین کو اختیار دیا ہے کہ باہمی رضامندی سے مہر مثل سے کم یا زیادہ مہر مقرر کرسکتے ہیں، لیکن وہ دس درہم سے کم نہ ہو اور اس کو  ”مہرِ مسمی“ کہتے ہیں،  نکاح کے وقت زوجین جو مہر باہمی رضامندی سے طے کریں اسی کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوگی ، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں نکاح کے وقت   جب لڑکے والوں نے  دو تولہ سونے کو  مہر  قبول کرلیا تو اب لڑکے کےذمہ دو تولہ سونا مہر کی ادائیگی لازمی ہے اور مہر کو انگوٹھی کے وزن کے ساتھ  دو تولہ سونا پورا کرکے دینے سے مہر کی ادائیگی نہ ہوگی، لڑکی کو منگنی کے وقت انگوٹھی بطور ہبہ کے دے دی تھی تو اب وہ اس کی مالک ہے،البتہ کان کے بُندے کے وزن کے ساتھ دو تولہ مہر پورا کا وزن کر کے دے سکتے ہیں، البتہ اگر مہر معجل ہے تو فورا ادا کرنا ضروری ہے اور اگر مؤجل ہے تو ادائیگی بعد میں بھی کرسکتے ہیں، نیز  قرض لے کر مہر کی ادائیگی کرنے کی صورت میں  لڑکی  تو مہر کی مالک بن جائے گی، لیکن  قرض کی ادائیگی کے لیےلڑکی سے مہر واپس لینا درست نہیں، بل کہ  قرض کی ادائیگی شوہر کے ذمہ لازم ہے۔

نیز لڑکی اگر اپنی رضامندی سے مہر  میں کمی کرنا چاہے تو وہ کمی شرعا معتبر ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أقل ‌المهر ‌عشرة دراهم مضروبة أو غير مضروبة حتى يجوز وزن ‌عشرة تبرا، وإن كانت قيمته أقل، كذا في التبيين".

(كتاب النكاح، الباب السابع في المهر،  الفصل الأول في بيان مقدار المهر وما يصلح مهرا وما لا يصلح، ج:1، ص:302، ط: دار الفكر)

وفیہ أیضاً:

"وإن حطت عن مهرها صح الحط، كذا في الهداية. ولا بد في صحة حطها من الرضا حتى لو كانت مكرهة لم يصح ومن أن تكون مريضة مرض الموت هكذا في البحر الرائق".

(كتاب النكاح، الباب السابع في المهر، الفصل السابع في الزيادة في المهر والحط عنه فيما يزيد وينقص، ج:1، ص:313، ط: دار الفكر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما حكم ‌القرض فهو ثبوت الملك للمستقرض في المقرض للحال، وثبوت مثله في ذمة المستقرض للمقرض للحال، وهذا جواب ظاهر الرواية".

(كتاب القرض، فصل في حكم القرض، ج:7، ص:396، ط: العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144603100077

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں