کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کےبارے میں کہ میری شادی 2015 میں ہوئی تھی ، اور اس شادی سے میرے دو بچے ہیں ۔ اس کے بعد 2023 میں ، میں نے دوسری شادی کر لی اور اپنی پہلی زوجہ کو اس بارے میں نہیں بتایا۔اب میری پہلی زوجہ کو میری دوسری شادی کے بارے میں معلوم چلا ہے، جس کے بعد وہ میرے ساتھ رہنے پر رضا مند نہیں ہے، میری پہلی زوجہ اور اس کے گھر والے مجھے اپنی پہلی زوجہ کو طلاق دینے کے لئے مجبور کر رہے ہیں، جو کہ میں کسی بھی صورت میں دینے کے خلاف ہوں۔یہاں اس بات کا ذکر کرنا لازمی ہے کہ میری دوسری شادی کا معلوم چلنے کے بعد بھی میری پہلی زوجہ تمام خاندان کے سامنے اقرار کر رہی ہے کہ میری جانب سے میری پہلی زوجہ کو آج تک کسی بھی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، میرے رویے ، لین دین( معاشی طور پر ) یا دیگر معاملات میں اسے مجھ سے کوئی شکوہ شکایت نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی مجھ سے طلاق کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ان حالات میں اگر میری پہلی زوجہ میرے طلاق نہ دینے کی وجہ سے کورٹ سے خلع لیتی ہے، تو اس سلسلےمیں شریعت محمدی کے مطابق میری زوجہ کا میری مرضی کے بغیر کورٹ سے خلع لینا کیسا عمل ہے، اور آیا خلع لینے سے طلاق واقع ہو گی یا نہیں؟اور اس صورت میں شرعاً کیا حکم ہے۔
صورت مسئولہ میں اگر واقعتہ سائل دونوں بیویوں کے درمیان عدل وانصاف اورمساوات کا سلوک کرتاہے تو اس صورت میں پہلی بیوی کابلاوجہ سائل سےطلاق یا خلع کا مطالبہ کرنا جائزنہیں ہے، حدیثِ مبارک میں آتا ہے کہ جو عورت بغیر کسی مجبوری کے اپنے شوہر سے طلاق کا سوال کرےاس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔اس لیے عورت کو چاہیے کہ وہ حتی الامکان گھر بسانے کی کوشش کرے، بلاوجہ شوہر سے طلاق یا خلع کا مطالبہ نہ کرے۔نیز مذکورہ صورت حال میں عورت کاشوہر کی اجازت اور رضامندگی کےبغیرعدالت سے خلع لیناشرعاًمعتبرنہیں ہوگا،اس لیےکہ خلع کے لیے شوہر کی رضامندی اور اجازت ضروری ہے، اگر شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر بیوی عدالت سے خلع لے لے اور عدالت اس کے حق میں یک طرفہ خلع کی ڈگری جاری کردے تو شرعًا ایسا خلع معتبر نہیں ہوتا، اس سے نکاح ختم نہیں ہوتا، اور ایسی صورت میں عورت کے لیے دوسری جگہ نکاح کرنا بھی جائز نہیں ہوگا۔
سنن ابی داؤد میں ہے:
"عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:أيما امرأة سألت زوجها طلاقًا في غير ما بأس، فحرام عليها رائحة الجنة."
(کتاب الطلاق، باب فی الخلع،ج :1،ص:321، ط: رحمانیہ)
ترجمہ:"حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو عورت بغیر کسی شدید وجہ کے اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے، اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔"
بدائع الصنائع میں ہے :
"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول، لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة، ولايستحق العوض بدون القبول."
(کتاب الطلاق، فصل في قوله طلقي نفسك، ج:3، ص:145، ط:دار الكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے :
"فقالت: خلعت نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية: لايتم الخلع ما لم يقبل بعده."
(کتاب الطلاق ،باب الخلع، ج:3، ص:440، ط:دار الفكر - بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608101666
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن