بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کی خدمت کی وجہ سے سنت اور نوافل نہیں پڑھ پاتی


سوال

اگر کوئی عورت جنۃ الفردوس میں جانے کی  کوشش کر رہی ہو  اور  پھر اس کی شادی  ہو جائے ، میرا سوال یہ کہ اللہ تعالی کے  حکم کے بعد  عورت کو  شوہر کی اطاعت کرنی ہوگی  تو کیا وہ فرائض میں سے  نماز پڑھے، روزے رکھے ، زکات اور خیرات دے اور اگر حج کی سعادت نصیب ہوجائے  تو حج بھی کرے اور پردہ  کے  بھی کرتی ہو ، لیکن  اگر نمازوں میں کام کی وجہ سے صرف فرض رکعات پڑھے جب کہ سنت اور نوافل  بھی پڑھنا چاہے  مگر وقت کی کمی کی وجہ سے نہ پڑھ سکے ،تو کیا پھر بھی ثواب پورا پورا  ملے گا؟

جواب

واضح رہے کہ عورت کے لیے  شوہر کی اطاعت واجب ہے ان کاموں میں جن میں اللہ تعالی کی نافرمانی نہ ہو،  اور  حدیث شریف  میں فرض نماز کی پابندی کرنے والی عورت کو بڑی فضیلت  حاصل ہے جیسا کہ درجِ ذیل حدیث میں اس کا تذکرہ آرہا ہے،باقی اگر عورت کی نفلی عبادت کی وجہ سے شوہر کے امور میں حرج آتا ہو تو نفلی عبادت کو مؤخر کیا جاسکتا ہے۔   لہذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ کو چاہیے کہ   فرائض کے ساتھ سنت ِ مؤکدہ کو ادا کرنے  کا اہتمام کرے کیوں کہ    سنتِ مؤکدہ  کو چھوڑنا  مکروہ تحریمی ہے، باقی جو  اس کے علاوہ نفلی عبادات  جن کو ادا کرنے کا معمول تھا، شوہر کی خدمت اور گھر کے کام کی وجہ سے وقت نہ ملنے کی وجہ سے امید ہے کہ اس کا ثواب ضرور ملتا رہے گا، لیکن جن مواقع پر شوہر کو حرج نہ ہو تو نفلی عبادات بھی جاری رکھی جائیں۔

مسند احمد کی روایت ہے:

"1661 - حدثنا يحيى بن إسحاق حدثنا ابن لهيعة عن عبيد الله بن أبي جعفر أن ابن قارظ أخبره عن عبد الرحمن بن عوف قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صلت المرأة خمسها وصامت شهرها وحفظت فرجها وأطاعت زوجها قيل لها ادخلي الجنة من أي أبواب الجنة شئت".

ترجمہ:’’  حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  جب عورت پانچ وقت کی فرض نمازیں(وقت پر) ادا کرے اور رمضان کے روزے رکھے  اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے اور شوہر کی اطاعت کرے، اسے(قیامت کے دن) کہا جائے گا:  تو  جنت کے جس دروازے سے  چاہے داخل ہوجا‘‘۔

(مسند امام احمد: الجزء الثالث، ج:3 ص:199، ط:  مؤسسة الرسالة)

فيض القدير للمناوي میں ہے:

"(إذا  صلت المرأة خمسها) المكتوبات الخمس (وصامت شهرها) رمضان غير أيام الحيض إن كان (وحفظت) وفي رواية أحصنت (فرجها) عن الجماع المحرم  والسحاق (وأطاعت زوجها) في غير معصية (دخلت) لم يقل تدخل إشارة إلى تحقق الدخول (الجنة) إن اجتنبت مع ذلك بقية الكبائر أو تابت توبة ".

(فيض القدير للمناوي: ج:6 ص:497، ط: دار الكتب العلمية)

البحر الرائق ميں ہے:

"وحاصله أن السنة إذا كانت مؤكدة قوية لا يبعد أن يكون تركها مكروها كراهة تحريم كترك الواجب فإنه كذلك وإن كانت غير مؤكدة فتركها مكروه تنزيها".

(البحر الرائق: كتاب الصلاة،باب ما يفسد الصلاة و ما يكره فيها، ج:2 ص:57، ط: دار الكتب العلمية)

وفيه ايضا:

"ولا تتطوع للصلاة والصوم بغير إذن الزوج "

(البحر الرائق: كتاب الصلاة، باب النفقة، ج:4 ص:332، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510100938

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں