بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے طلاق دیئے بغیر عورت کا طلاق کا فتوی لینے کا حکم


سوال

میری شادی کو 9 سال ہو چکے ہیں،اب کچھ عرصہ قبل میری بیوی نے مجھ پر الزام لگا کر کہا کہ مجھے خرچہ نہیں دیتا،اوراپنے والدین کے گھر چلی گئی،پھر ہمارا جرگہ ہوا اور مسئلہ حل ہو گیا،تو بیوی نے کہاکہ میں ایک دو دن مزید اپنی والدہ کے گھر میں رہنا چاہتی ہوں،دو دن بعد جب میں لینے گیا تو میری ساس نے کہا کہ تم نے میری بیٹی کو دو طلاقیں دی ہیں،پھر میری بیوی بھی اپنی والدہ کی بات پر ہو گئی،اور اس نے یہ کہا کہ چار سال پہلے میرے شوہر کے بھائی اور بھابھی کی لڑائی چل رہی تھی،اس میں میرے شوہر نے مجھے دو طلاقیں دی تھیں،پھر ان لوگوں نے فتوی لے لیا جس میں اپنا موقف تبدیل کر لیا کہ میرے شوہر نے مجھے ایک طلاق پہلے اور دو بعد میں دی ہیں،جس پر ان کو فتوی مل گیا،اور اب عدالت میں خلع کا کیس بھی کر دیا ہے۔

میرا سوال یہ ہے کہ کیا کوئی عورت اپنی مرضی سے جھوٹے الزام لگاکر طلاق کا فتوی لے کر کسی اور سے نکاح کر سکتی ہے؟

نکاح پر نکاح  کر کے زنا کا گناہ کس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا؟

نوٹ:سائل کی بیوی فتوی نمبر 144502101420 کے تحت طلاق کا فتوی لے چکی ہے،لیکن سائل کا کہنا یہ ہے کہ میں نے کوئی طلاق نہیں دی لہذا مجھے بھی فتوی دے دیا جائے ،میری بیوی کسی بھی طرح تحکیم کے لئے تیار نہیں ہے۔

جواب

واضح رہے کہ مفتی غیب کا علم نہیں جانتا،غیب کا علم صرف اللہ تعالی کو حاصل ہے،اللہ تعالی کے علاوہ  کسی کو بھی غیب کا علم حاصل نہیں ہے،لہذا اگر کوئی فرد غلط بیانی کر کے اپنے حق میں فتوی لے لےتو اس غلط بیانی کا وبال خود اس سائل کی گردن پر ہو گا،مفتی اس سے بری الذمہ ہوتا ہے،اور غلط بیانی کر کے اگر فتوی کسی نے اپنے حق میں لے لیا تو وہ چیز اس کے لئے حلال نہیں ہوتی،مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں عورت کا شوہر کی جانب سے طلاق دیے بغیر جھوٹ بول کر طلاق کا فتوی لینے سےشرعاً طلاق واقع ہونے کا حکم نہیں ہو گا،اگر وہ اس طرح سے فتوی لے کر کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے گی تو ایسے نکاح کا شرعًا کوئی اعتبار نہیں،اور اس کا گناہ اسی کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گااس کے حقیقی شوہر پر اس کا کوئی گناہ نہیں ہوگا،باقی طلاق کے اس معاملہ میں اختلاف کی صورت میں زوجین کو چاہیے کہ طلاق کے اس اختلافی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے زوجین کسی مستند حنفی عالم دین کو حکم/منصف بنائیں بعد ازاں حسب ضابطہ شرعی وہ جو فیصلہ کریں اس کے مطابق عمل کیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وأهله زوج عاقل بالغ مستيقظ.

(قوله: وأهله زوج عاقل إلخ) احترز بالزوج عن سيد العبد ووالده الصغير، وبالعاقل ولو حكما عن المجنون والمعتوه والمدهوش والمبرسم والمغمى عليه، بخلاف السكران مضطرا أو مكرها، وبالبالغ عن الصبي ولو مراهقا، وبالمستيقظ عن النائم. وأفاد أنه لا يشترط كونه مسلما صحيحا طائعا عامدا فيقع طلاق العبد والسكران بسبب محظور والكافر والمريض والمكره والهازل والمخطئ كما سيأتي."

(کتاب الطلاق،3/ 230، ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606101803

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں