بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

شوہر نے کہا اگر میں اپنے والدین کے گھر گیا تو تمہیں تین طلاق


سوال

شوہر کا بیان:

میری بیوی سے کسی وجہ سے لڑائی ہوگئی، بیوی تھانہ میں بھی چلی گئی لیکن پھر صلح ہوگئی، اس کے بعد یہ طے ہوا کہ میں شوہر کبھی بھی اپنے والدین کے گھر نہیں جاؤں گا، اور تم بھی اپنے والدین یا بہن بھائی کے گھر نہیں جاؤگی۔

اس کے کچھ دنوں بعد بیوی نے کہا کہ اگر تم اپنے والدین کے گھر گئے تو  مجھے تین طلاقیں ہوجائیں گی، اس پر میں نے کہا کہ ہاں ٹھیک ہے، اگر میں اپنے والدین کے گھر گیا تو تمہیں تین طلاقیں ہوجائیں گی۔

بیوی کا بیان:

میں نے شوہر سے کہا کہ میرا انتخاب کرو یا اپنے والدین کا، اس نے کہا کہ میں اپنے والدین کا انتخاب کرتا ہوں، میں نے کہا کہ آپ اپنے بچوں کو رکھیں میں گھر جارہی ہوں، شوہر نے کہا نہیں آپ بھی ساتھ رہیں گی، میں نے کہا قسم کھاؤ اپنے والدین کے گھر نہیں جاؤ گے، انہوں نے کہا اگر میں اپنے والدین کے گھر گیا تو تمہیں تین طلاقیں ہوجائیں گی۔ 

نوٹ: شوہر نے ایک دفعہ کسی موقع پر ایک  طلاق رجعی دے دی ہے، ان الفاظ سے کہ ”میں تیرے کو طلاق  دیتا ہوں“ ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً  شوہر نے یہ جملہ کہا کہ” اگر میں اپنے والدین کے گھر گیا تو میری بیوی کو تین طلاق“ ، تو شوہر کے کسی بھی مناسبت سے والدین کے گھر جانے سے بیوی کو تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی، اور بیوی شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی، اس کے بعد دونوں کا ساتھ رہنا جائز نہیں ہوگا، عدت کے بعد بیوی دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

البتہ شوہر کا  والدین کے گھر نہ جانے کی قسم کھانا، والدین کےساتھ قطع تعلقی کرنا ہے، جو کہ گناہِ کبیرہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، لہذا شوہر کو چاہیے کہ اپنی اس بات سے رجوع کرے، اس سے رجوع کرنے کا طریقہ یہ کہ شوہر بیوی کو ایک طلاقِ رجعی دے دے، پھر بیوی کو عدت مکمل کرنے دے، عدت کے دوران رجوع نہ کرے، عدت مکمل ہونے سے میاں بیوی کے درمیان نکاح ختم ہوجائے گا، پھر شوہر والدین کے گھر چلا جائے تو قسم پوری ہوجائے گی اور طلاق بھی محل نہ ہونے کی وجہ سے واقع نہیں ہوگی۔ اس کے بعد دونوں  دوبارہ نئے سرے سے(شرعی گواہ اور نئے مہر کے ساتھ) نکاح کرلیں، البتہ نئے سرے سے نکاح کرنے کے بعد شوہر کو صرف ایک طلاق کا حق باقی رہے گا؛ کیوں کہ ایک طلاق پہلے ہوچکی تھی، اور ایک اب ہوگئی۔

شرح النووی میں ہے:

"وحدثني يحيى بن حبيب الحارثي حدثنا خالد وهو بن الحارث حدثنا شعبة حدثنا عبيد الله بن أبي بكر عن أنس رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم في الكبائر قال الشرك بالله وعقوق الوالدين وقتل النفس وقول الزور ۔۔۔۔ وقال الشيخ أبو عمرو بن الصلاح رحمه الله في فتاويه العقوق المحرم كل فعل يتأذى به الوالد أو نحوه تأذيا ليس بالهين مع كونه ليس من الأفعال الواجبة قال وربما قيل طاعة الوالدين واجبة في كل ما ليس بمعصية ومخالفة أمرهما في ذلك عقوق وقد أوجب كثير من العلماء طاعتهما في الشبهات."

(کتاب الإیمان، باب الكبائر وأكبرها، ج:2، ص: 87، ط: دار احیاء التراث العربی)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقاً، مثل أن يقول لإمراته: إن دخلت الدار فأنت طالق.

  (کتاب الطلاق، الباب الرابع، الفصل الثالث، ج:1، ص:420، ط:دار الفکر)

فتح القدیر میں ہے:

"(وألفاظ الشرط إن وإذا وإذا ما كل وكلما ومتى ومتى ما)۔۔۔(ففي هذه الألفاظ إذا وجد الشرط انحلت وانتهت اليمين) لأنها غير مقتضية للعموم والتكرار لغة، فبوجود الفعل مرة يتم الشرط ولا بقاء لليمين بدونه۔۔۔والحق أنها إنما تفيد عموم الأوقات بمعنى أن أي وقت تأتي تجد ذلك، ففي متى خرجت فأنت طالق، المفاد أن أي وقت تحقق فيه الخروج يقع الطلاق، فإذا تحقق في وقت وقع، ثم لا يقع بخروج آخر إلا لو أفادت التكرار."

(کتاب الطلاق، ‌‌باب الأيمان في الطلاق، ج:4، ص:114، ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتنحل) اليمين (بعد) وجود (الشرط مطلقا) لكن إن وجد في الملك طلقت وعتق وإلا لا، فحيلة من علق الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدة ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها."

(كتاب الطلاق، باب التعليق، ج:3، ص:355، ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101804

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں