مسئلہ یہ ہے کہ ایک لڑکی ہے ،اس کی بات پکی ہوئی اور صرف نکاح ہوا،رخصتی بھی نہیں ہوئی اور نہ خلوتِ صحیحہ ہوئی،نکاح میں مہر بھی طے ہوا،لیکن مہر کے متعلق یہ طے ہوا تھا کہ رخصتی پر دیں گے،پھر لڑکا نکاح کے کچھ دن بعد اپنے کام کی وجہ سے دوسرے ملک چلا گیا،اس کے کچھ دنوں کے بعد لڑکا اور لڑکی میں اختلافات شروع ہوگئے،لڑکی کے گھر والوں نے لڑکے کے گھر والوں کو سارے مسائل بتائے،ان سے بات چیت کی، لیکن کوئی حل نہیں نکل سکا،پھر دونوں کے گھر والوں نے فیصلہ کیا کہ الگ ہوجانا بہتر ہے،یہ شادی آگے چل نہیں سکتی۔پھر لڑکی والوں نے لڑکے والوں سے پوچھا کہ آپ لوگ طلاق دینا چاہتے ہیں یا ہم لوگ خلع لے لیں،ان لوگوں نے بولا جیسے آپ لوگو ں کی مرضی،اس کے بعد لڑکی والوں نے لڑکا اور اس کے گھر والوں کی باہمی رضامندی سےخلع کا کیس دائر کردیا،کیوں کہ لڑکا باہر ملک میں تھاتاکہ سب چیزیں قانونی طور پر ہوں اور بذریعہ کاغذات یہ نکاح ختم ہوجائے۔پھر لڑکا چوں کہ یہاں موجود نہیں تھاتو اس نے ایک وکیل کیااور اپنی والدہ کو یہ اختیار دیا کہ وہ اس کی طرف سےکورٹ میں حاضر ہوں،نیز اسے ہر چیز کا علم تھا۔
اس کےبعدکیس کی کاروائی شروع ہوئی، کورٹ میں جج نے لڑکی سے پوچھاآپ الگ ہونا چاہتی ہیں؟تولڑکی نے کہا جی میں الگ ہونا چاہتی ہوں،پھر لڑکے کے وکیل سے جج نے بات کی اور اس سے پوچھاکہ آپ لوگ کیا چاہتے ہیں؟لڑکے کے وکیل نے کہا کہ ہم بھی الگ ہونا چاہتے ہیں۔اور لڑکے کا قبول نامہ جس میں لکھا تھاکہ:
" مجھے اس خلع کی درخواست پر کوئی اعتراض نہیں ہے، میں نے اپنی رضامندی دے دی ہے، میں اس شادی کو مزید جاری رکھنا نہیں چاہتا، میں احترام کے ساتھ درخواست کرتا ہو ں کہ ہماری شادی کو جلد ازجلد ختم کردیا جائے، میں نے اس معاملہ میں اپنے وکیل اور والدہ کو معاون بنایا ہے۔"
لڑکے کے وکیل نے کورٹ میں جمع کروادیا،اور کہا کہ نکاح کے وقت لڑکی کو ہم نے سونے کی انگوٹھی دی،وہ ہمیں واپس چاہیے،لڑکی کی والدہ نے جج کے سامنے وہ انگوٹھی لڑکے کی والدہ کو واپس کردی،پھر جج نے دونوں گھرانوں اور ان کے وکیلوں کی موجودگی میں فیصلہ سنادیا اور شادی ختم کردی،یہ تمام چیزیں لڑکے کے علم میں تھیں،لڑکے اور اس کے گھر والوں کی باہمی رضامندی سے ہی یہ سب ہوا،فیصلہ کے بعد لڑکے نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔
اب آپ سے درخواست ہے کہ ان تفصیلات کی روشنی میں یہ بتادیں کہ کیا نکاح ختم ہوچکا ہے؟اور کیامذکورہ لڑکی دوسری شادی کرسکتی ہے؟اگر ختم نہیں ہوا ہے تو اس معاملے میں ہم کیا کرسکتے ہیں اس کا حل بھی بتادیں؟
تنقیح:منسلکہ عدالتی خلع میں شوہر کے قبول نامہ اور انگوٹھی کا ذکر نہیں ہے؟
جواب تنقیح: جج نے جامع بنیاد پر فیصلہ سنایا ہے،اور فیصلہ میں اگر چہ قبول نامہ اور انگوٹھی وغیرہ کاذکر نہیں ہے،لیکن یہ تمام باتیں عدالت میں جج کے سامنے ہوئی تھی،اور ان تمام باتوں کو سننے کے بعد ہی جج نے فیصلہ سنایا تھا۔
واضح رہےکہ خلع دیگر مالی معاملات کی طرح ایک معاملہ ہے جس طرح دیگر مالی معاملات کے لیے عاقدین کی رضامندی شرعاً ضروری ہوتی ہے اسی طرح خلع کے معتبر اور درست ہونے کے لیے بھی زوجین کی رضامندی شرعًا ضروری ہوتی ہے،کوئی ایک فریق راضی ہو دوسرا راضی نہ ہو تو ایسا خلع شرعًا معتبر نہیں ہوتا،خواہ وہ عدالتی خلع ہی کیوں نہ ہو، بلکہ نکاح بدستور قائم رہتا ہے۔
صورتِ مسئولہ میں منسلکہ قبول نامہ کا مطالعہ کیا گیا،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکے نے عدالتی خلع کے ذریعہ نکاح کو ختم کرنے کی اجازت دی ہے،اور اس معاملہ میں اپنے وکیل اور والدہ کو معاون بنایا ہے،لہذا عدالت کی جانب سے منسلکہ قبول نامہ کی بنیاد پر جاری کی گئی خلع کی ڈگری شرعاً معتبر ہے،اس سےلڑکی پر ایک طلاق ِبائن واقع ہوچکی ہے،اور میاں بیوی کا نکاح ختم ہوچکا ہے ۔
نیزنکاح کے بعد چوں کہ رخصتی اور خلوتِ صحیحہ (یعنی لڑکی کی اپنے شوہر سے کسی کمرے میں تنہائی میں ملاقات) نہیں ہوئی ہے تو ایسی صورت میں لڑکی پرکوئی عدت بھی نہیں ہےاور وہ جہاں نکاح کرنا چاہے، وہاں نکاح کرنےمیں آزاد ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."
(کتاب الطلاق،باب الخلع،ج:3،ص:441،ط:سعید)
البحر الرائق میں ہے:
"(قوله الواقع به، وبالطلاق على مال طلاق بائن) أي بالخلع الشرعي أما الخلع فقوله عليه الصلاة والسلام الخلع تطليقة بائنة، ولأنه يحتمل الطلاق حتى صار من الكنايات، والواقع بالكناية بائن."
(کتاب الطلاق،باب الخلع،ج:4،ص:77،ط:دارالکتاب الاسلامی)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"رجل تزوج امرأة نكاحا جائزا فطلقها بعد الدخول أو بعد الخلوة الصحيحة كان عليها العدة كذا في فتاوى قاضي خان.۔۔۔ إن فرق قبل الدخول لا تجب العدة"
(كتاب الطلاق،الباب الثالث عشر في العدة،ج:1،ص:526،ط:دارالفكر بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604101820
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن