بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے رویے سے تنگ آکر شوہر کے دوسرے گھر جانا


سوال

  ایک خاتون ہے،جس کا صرف ایک بیٹا ہےاور اس خاتون کو شوہر کی طرف سے توجہ بھی نہیں (یعنی حقوق زوجیت بالقصد ادا نہیں کرتےطویل زمانہ سےاور دوسری بیوی پر اس کی مکمل توجہ منحصر ہے) تو اب یہ خاتون اس شوہر کے ہاں سے جانا چاہتی ہے (چوں کہ ان کے دو گھر ہیں ایک پنجاب میں اور دوسرا خیبر پختون خواہ میں ) تو یہ خاتون کہہ رہی ہے میں اپنے بیٹے سمیت خیبر پختون خواہ والے گھر جانا چاہتی ہوں؛ تاکہ وہاں زندگی آرام سے ہو، اس لیے کہ گھر میں رہتے ہوئے شوہر کی ساری توجہ اپنی سوکن پر دیکھتی ہوں تو  مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے، کیا یہ خاتون شوہر کے اس گھر سے (جہاں شوہر رہتا ہے) جاکر دوسرے گھر میں رہائش پزیر ہوسکتی ہےجب کہ اس دوسرے گھر میں اس کے خاندان کے اور لوگ بھی ہیں؟

 

جواب

شریعتِ مطہرہ نے جہاں مرد کو ایک سے زائد نکاح کی اجازت دی ہے وہاں مرد کو اس بات کا پابند بھی کیا ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے درمیان لباس پوشاک، نان نفقہ، رہائش کی فراہمی اور شب باشی وغیرہ میں برابری کرے، اور بیویوں کے ان حقوق میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے، یہاں تک کہ ایک بیوی کے پاس جتنی راتیں گزارے اتنی ہی راتیں دوسری بیوی کے پاس بھی گزارے اور ایک بیوی کو جتنا نان نفقہ و دیگر  ضروریات کا سامان  چھوٹی بڑی تمام اشیاء، تحفہ تحائف  وغیرہ دے اتنا ہی دوسری بیوی  کو بھی دے، تاہم ہمبستری میں برابری ضروری نہیں ہے، اسی طرح کسی ایک بیوی کی طرف زیادہ میلان  پر چوں کہ انسان کا اختیار نہیں، اس لیے اس میں مؤاخذہ نہیں  ہے، لیکن ظاہری رہن سہن ، سلوک اور برتاؤ میں کچھ فرق نہ ہونا چاہیے،  پس جو شخص اپنی بیویوں  کے درمیان برابری نہیں کرتا تو ایسے شخص کے لیے سخت وعیدیں بزبانِ نبی آخر الزماں وارد ہوئی ہیں، جب کہ بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کرنے والے مردوں کے حق میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارتیں دی ہیں۔

"عن أبي هريرة عن النبي صلي الله عليه وسلم قال: إذا كانت عند رجل امرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة و شقه ساقط". رواه الترمذي و أبو داؤد و النسائي و ابن ماجه و الدارمي."

(مشكاة، باب القسم: الفصل الثاني، ٢/ ٢٨٠، ط: قديمي)

ترجمہ: ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں:  جس شخص کے نکاح میں (ایک سے زائد مثلاً) دو بیویاں ہوں  اور وہ ان دونوں کے درمیان عدل و برابری نہ کرے تو قیامت کے دن (میدانِ محشر میں) اس طرح سے آئے گا کہ اس کا آدھادھڑ ساقط ہوگا۔‘‘

دوسری حدیث میں ہے کہ جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور ان میں سے ایک کی طرف مائل ہو گیا تو وہ روز قیامت اس حال میں آئے گا کہ اس کے جسم کی ایک جانب فالج زدہ ہوگی۔

"قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: من كانت له امرأتان فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة و شقه مائل أي مفلوج."

(مرقاة المفاتيح، ٦/ ٣٨٤، ط: رشيدية)

مسلم شریف میں ہے:

"عن عبدالله بن عمرو... قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: إن المقسطين عند الله على منابر من نور عن يمين الرحمن عز و جل، و كلتا يديه يمين، الذين يعدلون في حكمهم و أهليهم و ما ولوا."

(كتاب الإمارة، باب فضيلة الإمام العادل)

ترجمہ: ’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ :  انصاف کرنے والے اللہ کے نزدیک نور کے منبروں پر رحمٰن کے دائیں جانب ہوں گے،  اور  اللہ کے دونوں ہاتھ یمین ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی رعایا کے ساتھ اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔‘‘

مذکورہ تفصیل کے بعد اگر  آپ کا شوہر  مذکورہ بالا  چیزوں میں دونوں بیویوں کے درمیان  مساوات نہیں رکھتا تو  وہ سخت گناہ گار  ہے، اس پر لازم ہے کہ وہ   شریعت کے اس  اہم حکم کی مکمل پاسداری کرے اورآپ سے معافی مانگ کر آئندہ کے لیےآپ کی  حق تلفی سے بچے، جس طرح ایک  بیوی کے حقوق مکمل طور پر ادا کررہا ہے  بالکل اسی طرح دوسری بیوی  کے  حقوق بھی ادا کرے اور دونوں بیویوں کے لیے باری مقرر کرے، ورنہ  اس روش کی وجہ سےشوہر ظالم شمارہوگااور اللہ کے یہاں اس کی پکڑہوگی، تاہم مذکورہ خاتون شوہر کی اجازت کے بغیر شوہر کے  اس رہائش والے گھر سے دوسرے گھر میں نہیں جاسکتی، اگر شوہر اجازت دے دے تو شرعاً جانے کی اجازت ہے ورنہ نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولیس لها أن تخرج بلا إذنه أصلًا".

( ج:3، ص:146، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101698

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں