میری بیٹی کی شادی کو پانچ سال ہوگئے ہیں، شادی کے چند ماہ بعد پتہ چلا کہ شوہر نشہ کرتا ہے، سسرال والے بھی بیٹی کو تنگ کرتے تھے اور شوہر اپنی بیوی یعنی میری بیٹی کو خرچہ پانی نہیں دیتا تھا، شوہر اس کو چھ ماہ کے لئے ہمارے گھر چھوڑ کر چلا جاتا پھر آکر معافی تلافی کے اس کو دوبارہ لے جاتا،پھر چند دنوں بعد دوبارہ لڑائی ہوتی، تو چھ سات ماہ کے لئے ہمارے گھر چھوڑ دیتا،اب سوال یہ ہے کہ نکاح کا کیا حکم ہے؟ اس رشتہ کا کیا حل ہے؟ کیونکہ شوہر کا رویہ بہت خراب ہے اور مارتا پیٹتا بھی بہت ہے، کوئی حل بتائیں؟
واضح رہے کہ جس طرح بیوی پر شوہر کے حقوق کی بجاآوری لازم ہے، اسی طرح شوہر پر بھی بیوی کے حقوق کا خیال رکھنا اور اس کی رعایت کرنا لازم ہے، شوہر پر بیوی کے حقوق میں سے ہے کہ شوہر بیوی پر اپنے حیثیت کے مطابق خرچ کرتا رہے، اس کے کھانے پینے اور دیگر ضرویات زندگی کا خیال رکھے، اپنی آخرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے بیوی کے ساتھ ترش روری، مار پیٹ ، گالم گلوچ اور ظلم و ستم سے اجتناب کرے، حسن معاشرت ، برداشت اور حکمت و تدبر کے ساتھ گھریلو معاملات کو چلائے، لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے داماد کو چاہیے کہ اپنے رویہ پر نظر ثانی کرکے اپنی اصلاح کی فکر کرے اور بیوی کے حقوق کا خیال رکھے، اس کا نان نفقہ کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ حسن معاشرت اور اچھے رویہ کے ساتھ پیش آیا کریں، اگر سائل کے داماد کی اصلاح کی کوئی صورت نہ ہو اور اس کے ساتھ نباہ مشکل ہو، تو سائل اولاً اپنے داماد کو طلاق دینے پر آمادہ کریں، اگر وہ طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو، تو اس کو خلع دینے پر آمادہ کریں ، اگر وہ خلع دینے پر بھی آمادہ نہ ہو، تو سائل خاندان کے بڑوں اور علاقہ کے معززین کے ذریعے اپنے داماد پر دباؤ ڈالے کہ یا تو اپنی بیوی کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے گھر بسائے یا اس کو طلاق یا خلع دے دے، اگر اس کے باوجود سائل کے داماد کے رویہ میں تبدیلی نہیں آئی اور وہ بدستور اپنی روش پر قائم رہا ، اور باوجود قدرت کے نان نفقہ ادا نہ کرے اور بیوی کے نان نفقہ کا کوئی اور انتظام بھی نہ ہو سکے یعنی نہ تو کوئی شخص نان نفقہ کا بندوبست کرتا ہو اور نہ خود عورت حفظ آبرو کے ساتھ کسب معاش پر قدرت رکھتی ہو یا اگر بسہولت یا بدقت خرچ کا انتظام ہوسکے لیکن شوہر سے علیحدہ رہنے میں ابتلاء معصیت کا اندیشہ ہو، تو پھر نکاح ختم کروانے کا طریقہ یہ ہے کہ بیوی کسی مسلمان جج کی عدالت میں شوہر کے نان نفقہ نہ دینے کی بنیاد پر فسخ نکاح کا مقدمہ دائر کرے، اور عدالت میں اولاً شرعی گواہوں کے ذریعے اپنے نکاح کو ثابت کرے، بعدازاں شرعی گواہوں کے ذریعے یہ ثابت کرے کہ شوہر باوجود قدرت کے نان نفقہ نہیں دیتا اور نہ ہی نان نفقہ کا انتظام میرے پاس موجود ہے، اور نہ ہی نان نفقہ میں نے معاف کیا ہے، اس کے بعد عدالت اسے بذریعہ سمن عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیتی ، اگر شوہر عدالت میں حاضر ہوجائے، اور نان نفقہ دینے پر رضامندی ظاہر کردےتو عدالت کو فسخ نکاح کا اختیار نہیں ہوگا، اگر وہ عدالت میں حاضر ہوکر نان نفقہ دینے سے انکار کر دےیا سرے سے عدالت میں حاضر ہی نہ ہو تو عدالت کو اس کی غیر موجودگی میں بھی گواہوں کی گواہی کی بنیاد فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہوگا جس کے بعد عدت گزار کر بیوی کا دوسری جگہ نکاح کرنا جائز ہوگا۔
تفسیر مظہری میں ہے:
"وإن خفتم ايها الحكام شقاق يعنى العداوة والخلاف لان كلا من الأعداء يفعل ما يشق على صاحبه او يميل الى شق اخر غير شق مختار لصاحبه بينهما اى بين الزوجين، او رد ضميرهما من غير سبق المرجع لجريان ذكر ما يدل عليهما وهو النشوز لانه عصيان المرأة عن مطاوعة الزوج او يقال ذكر المرأة وضمير الزوج فى قوله تعالى واللاتي تخافون نشوزهن وأضيف الشقاق الى الظرف مجازا كما فى قوله تعالى مكر الليل والنهار والخوف بمعنى الظن يعنى إذا ظهر من الزوجين ما ظننتم به تباغضهما واشتبه حالهما فى الحق والباطل فابعثوا الى الرجل حكما يعنى رجلا عاقلا عادلا يصلح للحكومة من أهله وابعثوا الى المرأة رجلا اخر حكما من أهلها وانما قيد بكون الحكمين من أهلهما لان الأقارب اعرف ببواطن الأحوال واطلب للصلاح وهذا القيد استحبابى ولو بعثوا أجنبيين جاز فيبحث الحكمان عن أحوالهما ويعرفان الظالم منهما فان كان الظلم من الزوج امراه بامساك بمعروف او تسريح بإحسان وان كان النشوز منها امراها باطاعة الزوج او الافتداء."
(سورۃ البقرۃ، الآیة:35، ج:2، ص:101، ط:مكتبة الرشدية)
وفیہ ایضا:
"ولهن اى للنساء على الأزواج حقوق مثل الذي عليهن للازواج فى الوجوب واستحقاق المطالبة لا فى الجنس بالمعروف بكل ما يعرف فى الشرع من أداء حقوق النكاح وحسن الصحبة فلا يجوز لاحد ان يقصد ضرار الاخر بل ينبغى ان يريدوا إصلاحا قال ابن عباس انى أحب ان اتزين لامراتى كما تحب امراتى ان تتزين لى لان الله تعالى قال ولهن مثل الذي عليهن بالمعروف-عن معاوية القشيري قال قلت يا رسول الله ما حق زوجة أحدنا عليه قال ان تطعمها إذا طعمت وان تكسوها إذا اكتسيت ولا تضرب الوجه ولا تقبح ولا تهجر الا فى البيت- رواه احمد وابو داود وابن ماجة وعن جعفر بن محمد عن أبيه عن جابر فى قصة حجة الوداع قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فى خطبته يوم عرفة فاتقوا الله فى النساء فانكم أخذتموهن بامان الله واستحللتم فروجهن بكلمة الله ولكم عليهن ان لا يؤطين فرشكم أحدا تكرهونه فان فعلن ذلك فاضربوهن ضربا غير مبرج ولهن عليكم رزقهن وكسوتهن بالمعروف- رواه مسلم وعن ابى هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ان أكمل المؤمنين ايمانا أحسنهم خلقا وخياركم خياركم لنسائهم- رواه الترمذي وقال حسن صحيح ورواه ابو داود الى قوله خلقا- وروى الترمذي نحوه عن عائشة وعن عبد الله بن زمعة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يجلد أحدكم امرأته جلد العبد الحديث- متفق عليه وعن عائشة قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم خيركم خيركم لاهله وانا خيركم لاهلى- رواه الترمذي والدارمي ورواه ابن ماجة عن ابن عباس وعن ابى هريرة قالا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم استوصوا بالنساء خيرا فانهن خلقن من ضلع وان اعوج شىء فى الضلع أعلاه فان ذهبت تقيمه كسرته وان تركته لم يزل اعواج فاستوصوا بالنساء- متفق عليه.وللرجال عليهن درجة زيادة فى الحق وفضلا قال النبي صلى الله عليه وسلم لو كنت امر أحدا «1» ان يسجد لاحد لامرت المرأة ان تسجد لزوجها لما جعل الله لهم عليهن من حق- رواه ابو داود عن قيس بن سعد- واحمد عن معاذ بن جبل والترمذي عن ابى هريرة نحوه والبغوي عن ابى ظبيان وعن أم سلمة قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أيما امراة ماتت وزوجها عنها راض دخلت الجنة- رواه الترمذي وعن طلق بن على قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا الرجل دعا زوجته فلتأته وان كانت على التنور- رواه الترمذي والله عزيز يقدر على الانتقام ممن ظلم على الاخر حكيم يشرع الاحكام لحكم ومصالح."
(سورۃ البقرۃ، الآیة : 228، ج:1، ص:299، ط:مكتبة الرشدية)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية."
(کتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع وما في حكمه ، الفصل الأول في شرائط الخلع وحكمه وما يتعلق به، ج:1، ص:488، ط:دار الفكر بيروت)
حیلہ ناجزہ میں ہے:
"متعنت: اصطلاح میں اس شخص کو کہتے ہیں جو باوجود قدرت کے بیوی کے حقوق نان نفقہ وغیرہ ادا نہ کرے اس کا حکم بھی بوقت ضرورت شدیدہ ستم رسیدہ مستورات کی رہائی کے لیے مالکیہ مذہب سے لیا گیاہے جو ذیل کے سوال و جواب میں مذکور ہے"
سوال:(1) جو شخص باوجود قدرت کے اپنی زوجہ کے حقوق نان نفقہ ادانہ کرتا ہو، کیا اس کی زوجہ کو حق حاصل ہے کہ کسی طرح اپنے آپ کو اس کی زوجیت سے نکال سکے، اگر ہے تو اس کی کیا صورت ہے۔
(2)اگر قاضی ان میں تفریق کرسکتا ہو، تو جب قاضی اس متعنت کی زوجہ پر طلاق واقع کرچکا جو نان نفقہ نہ دیتا ہو اس وقت یا اس کے بعد پھر کسی وقت اپنی حرکت سے باز آجائے اور نان نفقہ وغیرہ حقوق ادا کرنے کا وعدہ کرے تو کیا وہ عورت پھر اس کو مل جائے گی اور اگر اس کو مل سکتی ہے تو قبل عدت اور بعد عدت میں یا قبل نکاح ثانی اور بعد نکاح ثانی میں کچھ فرق ہوگا یا نہیں؟
الجواب:زوجہ متعنت کو اول تو لازم ہے کہ کس طرح خاوند سے خلع وغیرہ کرلےلیکن اگر باوجود سعی بلیغ کے کوئی صورت نہ بن سکے تو سخت مجبوری کی حالت میں مذہب مالکیہ پر عمل کرنے گنجائش ہے کیوں کہ ان کے نزدیک زوجہ متعنت کو تفریق کا حق مل سکتا ہے، اور سخت مجبوری کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ عورت کے خرچ کا کوئی انتظام نہ ہو سکے، یعنی نہ کوئی شخص عورت کے خرچ کا س بندو بہت کرتا ہو اور نہ خود عورت حفظ آبرو کے ساتھ کسب معاش پر قدرت رکھتی ہو۔ اور دوسری صورت مجبوری کی یہ ہے کہ اگر چہ سہولت یا بدقت خرچ کا انتظام ہو سکتا ہے، لیکن شوہر سے علیحدہ رہنے میں ابتلاء معصیت کا قومی اندیشہ ہو۔ اور صورت تفریق کی یہ ہے کہ عورت اپنا مقدمہ قاضی اسلام یا مسلمان حاکم اور ان کے نہ ہونے کی صورت میں جماعت مسلمین کے سامنے پیش کرے، اور جس کے پاس پیش ہو وہ معاملہ کی شرعی شہادت وغیرہ کے ذریعہ سے پوری تحقیق کرے۔ اور اگر عورت کا دعوی صحیح ثابت ہو کہ باوجود وسعت کے خرچ نہیں دیتا ، تو اس کے خاوند سے کہا جاوے کہ اپنی عورت کے حقوق ادا کر یا طلاق دے، اور نہ ہم تفریق کردیں گے، اس کے بعد بھی اگر وہ ظالم کسی صورت پر عمل نہ کرے تو قاضی یا شرعا جو اس کے قائم مقام ہو طلاق واقع کردے، اس میں کسی مدت کے انتظار اور مہلت کی باتفاق مالکیہ ضرورت نہیں۔ الرواية الثالثة والعشرين من الفتوى للعلامة سعيد بن صديق.
(حکم زوجہ متعنت ، ص:72، ط: مکتبۃ البشری کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602101436
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن