ایک شک و شبہ سے بالا بندہ نماز کے بعد مسجد سے باہر نکلا جس کے ہاتھ میں ایک بوری تھی اور اس کے اندر کچھ پنکھے تھے ،نمازیوں نے اس کو پکڑ لیا اور لوگوں نے شک کیا کہ یہ پنکھے مسجد کے ہیں،اس نے انکار کیا کہ یہ پنکھے میرے اپنے ہیں اور میں مسجد میں پانی پینے اندر گیا تھا ،لوگوں نے اس کی پٹائی لگائی اور مسجد میں لےکر آگئے،مسجد کے کچھ ساتھیوں سے پوچھا کہ دیکھو یہ پنکھے مسجد کے ہیں تو ان میں سے ایک ساتھی نے تصدیق کی ،لوگوں نے اس سے پنکھے لے لئےاور اس کو بھگادیا،بعد میں مؤذن صاحب نے کہا کہ یہ پنکھے مسجد کے نہیں ہیں اور اب وہ پنکھے مسجد کی انتظامیہ والوں نے بیچ دئےتو اب اس کی رقم کا کیا کیا جائے؟
صورت مسئولہ میں جب یہ بات ثابت ہوچکی تھی کہ پنکھے مسجد کے نہیں تھے تو انتظامیہ والوں کا ان پنکھوں کو فروخت کرنا شرعا جائز نہیں تھا،بلکہ انتظامیہ کو چاہیے تھا کہ جس بندے سے یہ پنکھے لئے تھے اس کو تلاش کرکے پنکھے واپس کرتے،چنانچہ اب انتظامیہ والوں پر لازم ہے کہ جس کو پنکھے فروخت کیے ہیں اگر اس سے واپس لینا ممکن ہے تو واپس لیں اور ان کو محفوظ رکھیں ،اگر پنکھے واپس لینا ممکن نہ ہو تو ان کی قیمت بطور امانت محفوظ رکھی جائے اور متعلقہ شخص کو تلاش کرکے پنکھے / رقم اس کے حوالہ کی جائےاور بلاتحقیق اس کو مارنے او ر اس کا سامان ضبط کرنے پر اس سے معافی تلافی کی جائے اور بلا تحقیق جن لوگوں نے اس بے قصو ر کو مارا تھا وہ شرعا ظلم و زیادتی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ دنیا میں اس مظلوم سے معافی نہیں مانگی تو آخرت میں چھٹکارا نہیں ہوگا۔ اس طرح اس کا مال ضبط کرنا بھی حرام اور سراسر ظلم ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"وأما حكمه فالإثم والمغرم عند العلم وإن كان بدون العلم بأن ظن أن المأخوذ ماله أو اشترى عينا ثم ظهر استحقاقه فالمغرم ويجب على الغاصب رد عينه على المالك وإن عجز عن رد عينه بهلاكه في يده بفعله أو بغير فعله فعليه مثله إن كان مثليا كالمكيل والموزون فإن لم يقدر على مثله بالانقطاع عن أيدي الناس فعليه قيمته يوم الخصومة عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وقال أبو يوسف - رحمه الله تعالى -: يوم الغصب وقال محمد - رحمه الله تعالى -: يوم الانقطاع كذا في الكافي. وإن غصب ما لا مثل له فعليه قيمة يوم الغصب بالإجماع كذا في السراج الوهاج."
(كِتاب الغصب،الباب الأول في تفسير الغصب وشرطه وحكمه،5/ 119،ط:دار الفکر)
وفيه أيضا:
"إذا ندم الغاصب على ما صنع ولم يظفر بالمالك قال مشايخنا أمسك المغصوب إلى أن يرجو مجيء صاحبه فإذا انقطع رجاؤه بمجيء صاحبه تصدق به إن شاء والأحسن أن يرفع ذلك إلى الإمام؛ لأن للإمام تدبيرا ورأيا فالأحسن أن لا يقطع عليه رأيه.
وسئل يوسف بن محمد عن غاصب ندم على ما فعل وأراد أن يرد المال إلى صاحبه وقع له اليأس عن وجود صاحبه فتصدق بهذا العين هل يجوز للفقير أن ينتفع بهذا العين؟ فقال: لا يجوز أن يقبله ولا يجوز له الانتفاع وإنما يجب عليه رده إلى من دفعه إليه قال - رضي الله عنه - إنما أجاب بهذا الجواب زجرا لهم كي لا يتساهلوا في أموال الناس أما لو سلك الطريق في معرفة المالك فلم يجده فحكمه حكم اللقطة قيل له إذا لم يجز الانتفاع به وأراد أن يرده إلى الغاصب فلم يجد الغاصب وهذا العين يهلك في الصيف ولا يبقى إلى أن يجد الغاصب أو يرجع إلى الغاصب كيف يفعل فقال يمسكه حتى يمكنه حتى إذا خاف هلاكه باعه وأمسك ثمنه حتى يرده إلى من دفع إليه العين كذا في التتارخانية."
(کتاب الغصب،الباب الرابع عشر في المتفرقات،5/ 154،157،ط:دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144605101122
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن