بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

شئیرز سرٹیفکٹس، گریجویٹی فنڈ، پراویڈنٹ فنڈ کی تقسیم / غلط بیانی کرکے جگہ نام کرنے کا حکم


سوال

 ایک شخص کا انتقال ہو گیا، اس كے ورثاء ميں ایک بیوه ہے، اور اولاد کوئی نہیں، اور مرحوم کے تین بھائی زندہ ہیں، ایک بھائی مرحوم سے قبل انتقال کر گیا تھا۔ مرحوم ایک فرم میں ملازم تھے۔ بیوہ اسکول ٹیچر تھی اور اس کو اپنے والدین کی طرف سے ورثے میں کثیر رقم بذریعہ پے آرڈر اور نقدی کی صورت میں ملی تھی۔ مرحوم  اپنی اہلیہ کے ساتھ مشترکہ رقم سے پلاٹوں  کی خرید و فروخت کا کاروبار بھی کرتے تھے۔ مرحوم  31 دسمبر 2022 کو ریٹائر ہوئے  تھے، جب کہ مرحوم کا انتقال 8 جنوری 2023 کو ہوا تھا۔

1۔مرحوم کےاپنی بیوی کے ساتھ مشترکہ بینک اکاؤنٹس تھا، اکاؤنٹ کے tittle میں مرحوم اور بیوہ دونوں کا نام شامل تھا گویا ملکیت مشترکہ تھی۔ بینک میں اکاؤنٹ کھولتے وقت دونوں نے بینک کو لکھ کر دیا تھا کہ جب تک ہم دونوں زندہ ہیں یہ اکاؤنٹس مشترکہ ہیں اور اگر ہم میں سے کوئی انتقال کر جاتا ہے تو  زندہ رہ جانے والا  ساتھی رقم کا حق دار ہوگا یعنی اکاؤنٹس either or survivor کی بنیاد پر تھے۔ اور  مرحوم نے موت سے قبل ایک گفٹ ڈیڈ    Gift Deed اپنی بیوی کو دی جس کے تحت اپنے بینک میں موجود رقم بیوی کو گفٹ  کر دی اور بیوہ نے مرحوم کی  موت سے قبل بینک سے بیشتر نقدی نکال لی(گفٹ  ڈیڈ  وغیرھ   کے تحت )رقم سے اپنے مرحوم شوہر جو کہ کینسر کے مریض تھے ان کے علاج  میں اور دیگر ذاتی اخراجات  میں صرف  کی، علاوہ ازیں مرحوم  اپنے ایک بھائی کو ماہانہ اخراجات کے واسطے بھی رقم دیتے تھے ۔

2۔مرحوم کے نام ایک رہائشی  گھر تھا جہاں وہ اپنی بیوی کے ساتھ رہائش پذیر تھا۔ اس گھر کی خریداری میں مرحوم کے علاوہ بیوہ نے اپنا زیور بیچ کر رقم ڈالی تھی۔ اس گھر کی خریداری میں بیوہ کے بھائی نے بھی بذریعہ بینک رقم دی تھی۔ اور ایک پلاٹ تھا، جس کو وہ انتقال سے قبل اپنی اہلیہ کے نام منتقل کرنا چاہتے تھے اور جس کی آڈیو  ریکارڈنگ موجود ہے۔ مرحوم کے  ایک بھائی نے مرحوم کی زندگی میں غلط بیانی کرکے اپنے نام منتقل کروا لیا، اور مرحوم بھائی کو عندیہ دیا کے بیوہ جس مکان میں رہ رہی ہے اس کو وہ دے دیا جائے گا،  مگر گھر کی ملکیت کی منتقلی میں روڑے ڈالے۔

3۔اس کے علاوہ ترکہ میں  الف : شیئرز سرٹیفکیٹس،ب:  پراویڈنٹ فنڈ کے واجبات، ج:   اور گریجويٹی فنڈ  کے واجبات بھی ہیں جو کے مرحوم کے employer سے قابل وصولی ہیں، جس کے لیے مرحوم نے اپنی بیوی کو اپنے آفس میں پراویڈنٹ فنڈ اور گریجويٹی کے لیے نامزد کیا تھا۔

4۔ مرحوم نےاپنی زندگی میں اپنے بھائی کے پاس زیورات جو کہ اس کی بیوی کے جہیز اور بری میں ملے تھے امانت کے طور پر بینک لاکر میں رکھوائے  تھے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں  بینک میں مرحوم كے   اپني اہلیہ (سائلہ)  کے ساتھ جو مشترکہ اکاؤنٹس تھے، جس کو مرحوم نے اپنی وفات سے قبل تحریری طور پر گفٹ ڈیٹ بناکر سائلہ کے نام کردیا تھا، اور سائلہ نے گفٹ ہونے  کے بعد بینک میں موجود  رقم کو   نکلواکر اپنے قبضہ میں لے کر اپنی ذاتی مصرف میں  استعمال بھی  کی تھی، تو مذکورہ مشترکہ بینک اکاؤنٹ میں موجود  ساری رقم سائلہ کی ہوئی ،اور یہ رقم ترکہ میں شامل ہوکر ورثاء میں تقسیم نہیں ہوگی۔

2۔اور  مرحوم کا رہاشی مکان جس   میں سائلہ نے اپنے زیورات بیچ کر رقم ڈالی تھی اور اسی طرح سائلہ کے بھائی نے بھی   گھر کی خریداری   میں بہن کی ہیلپ کے طور پر  بذیعہ بینک  رقم بھیجی تھی۔ تو یہ مکان  مرحوم اور سائلہ کے درمیان ان کے حصص کے حساب سے مشترک ہے، لہذا مکان میں جس قدر حصے سائلہ کے ہیں،  وہ سائلہ ہی کی ملکیت رہی گی ،اور  مرحوم شوہر کے حصے  شرعی طور پر ورثاء میں تقسیم ہوگی۔ اور مرحوم شوہر نے  مکان  سائلہ کےنام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، تو صرف خواہش کے اظہار کرنے سے پوار مکان سائلہ کا نہیں ہوگا۔

3۔ الف:  اور شئیرز سرٹیفیکٹ  یہ  مرحوم کے ترکہ میں شامل ہوکر ورثاء کے درمیان حصصِ شرعیہ کے تناسب سے تقسیم ہوگا۔

ب:گریجویٹی فنڈ   کی رقم ادارہ کی طرف سے عطیہ ہوتی ہے،اس  رقم کا حق دار وہی ہوتا ہے، جس کے نام پر یہ رقم جاری ہو ،لہذا اس  فنڈ  کی مد میں ملنے والی رقم مرحوم  کے ترکہ میں شامل نہیں ہوگی، بلکہ شوہر کی جانب سے بیوی کو نامزد کیے جانے کی وجہ سے گریجویٹی فنڈ وصول کرنے کا حق دار مرحوم  کی بیوہ ہی ہوگی، اور اس فنڈ میں  بقیہ ورثاء  میں سے کسی کا کوئی حق نہیں ہوگا۔

ج:  پراویڈنٹ فنڈ چوں کہ ملازم کی تنخواہ کا حصہ ہوتا ہے، اس وجہ سے مذکورہ فنڈ مرحوم کے ترکہ میں شامل ہوگا، تاہم اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر مذکورہ فنڈ  کے لیے تنخواہ میں سے کٹوتی جبراً ہوتی تھی تو ایسی صورت میں  اس فنڈ کی کل رقم ترکہ میں شامل ہوگی، اور اگر ملازم کی تنخواہ سے اختیاری طور پر کٹوتی ہوتی تھی، تو اس صورت میں صرف اصل رقم  اور وہ رقم جو ادارہ اپنی طرف سے شامل کرکے دے، ورثاء کے درمیان شرعی حصص  کے تناسب سے تقسیم ہوگی ۔ 

مرحو م کے جس بھائی کا انتقال مرحوم سے پہلے ہوا ہے، شرعاً مرحوم کے ترکہ میں اس کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں  مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد، اگر اس کے ذمہ کسی کا قرض ہو تو  اسے ادا کرنے کے بعد، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو، تو اسے باقی مال کے  ایک تہا ئی حصہ میں سے نافذ کرنےکےبعد بقیہ کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو  4 حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ مرحوم کی بیوہ کو اور ایک ایک حصہ مرحوم کے ہر  ایک زندہ  بھائی کو ملے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت: مرحوم شوہر: 4

بیوہ بھائیبھائیبھائی
1111

یعنی فیصد کے حساب سے  بیوہ کو 25 فیصد اور مرحوم کے ہر ایک زندہ  بھائی کو بھی 25 فیصد  کر کے ملے گا۔

4۔ اور مرحوم نے  اپنی زندگی میں بیوی کے جو زیورات ( خواہ اس کو جہیز میں ملے تھے یا  شوہر نے کسی اور موقع پر گفٹ کیے تھے) اپنے بھائی کے لاکر میں امانت کے طور پر رکھوائے تھے، وہ سب مرحوم کی بیوہ کی ہی ملکیت ہیں، اس پر کسی اور کا کوئی حق نہیں ہوگا، لہذا مذکورہ بھائی پر شرعاً لازم ہے کہ وہ تمام زیورات مرحوم بھائی کی بیوہ کے سپرد کرے۔اور بری کے زیورات کے مالک بھی بیوہ ہے۔

درر الحکام میں ہے:

"القبض في الهبة كالقبول في البيع بناء عليه تتم الهبة إذا قبض الموهوب له."

(الکتاب السابع الھبة، الباب الأول، الفصل الأول، ج: 2،ص: 406، ط: دار الجيل)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها، منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية."

(کتاب النکاح، الباب السابع، الفصل السادس عشر، ج: 1، ص: 327، رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"كل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها."

(  کتاب النکاح، باب المهر، ج: 3، ص: 158، ط: سعید)

وفيه أيضاً:

"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضاً ... قلت: ينبغي تقييد ذلك بما لم تجر به العادة."

( کتاب النکاح، باب المہر، ج: 3، ص: 153، ط: سعید)

امداد الفتاویٰ میں ہے :

"   چوں کہ میراث اموال مملوکہ میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسان سرکار کا ہے  بدون قبضہ مملوک نہیں ہوتا ،لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں  میراث جاری نہیں ہوگی ،سرکار کو اختیار ہے جس طرح چاہے  تقسیم کردے۔"

(کتاب الفرائض  ج 4 ص 342 ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144606101160

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں