ایک اہل حدیث عالم نے علماء دیوبند پر ایک اعتراض کیا ہے کہ دیوبند کے ایک بہت بڑے عالم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اگر نماز میں گدھے اور کتے کا خیال آئے تو نماز نہیں ٹوٹتی لیکن اگر نماز میں حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا خیال آجاۓ تو نماز ٹوٹ جاتی ہے ۔ براہ کرم یہ بتادیں کہ کیا ایسا کہنا گستاخی نہیں ہے اور اگر اس عبارت کا مطلب کچھ اور ہے تو براہ کرم اس اعتراض کو مدلل اور مفصل جواب کے ساتھ دور کیا جائے ۔ جزاک اللّٰہ ۔
یہ الفاظ بلاشبہ گستاخی کےزمرےمیں آتےہیں،تاہم ان الفاظ کی علماء دیوبند یااُن کےمشائخ کی طرف نسبت کرنا بریلوی مسلک کے بانی جناب احمدرضا خان بریلوی صاحب کا خود ساختہ افتراء ہےجس کی تفصیل حضرت مولانامحمدسرفرازخان صفدررحمہ اللہ نےایک مستقل تألیف عباراتِ اکابرمیں کردی ہے،جس کی کچھ تفصیل یہ ہے:
"1298ھ ميں بدایوں سےمرزا علی بیگ صاحب نامی ایک شخص نے مولوی احمدرضاخان صاحب بریلوی کےپاس ایک استفتاء بھیجا جس میں تیسرا سوال یہ تھا"روافض وغیرہم مبتدعین کہ کفار داخلِ مرتدین ہیں یا نہیں،جواب مفصل بدلائل عقلیہ ونقلیہ مدلل درکار ہے،بینوا تؤجروا۔(إعلام الأعلام بأن ہندوستان دار السلام،ص:6)اس کا جواب خان صاحب بریلوی نے یہاں سے شروع کیا۔
"جواب سوالِ سوم" فی الواقع جو بدعتی ضروریاتِ دین میں سے کسی شۓ کا منکر ہوباجماعِ مسلمین یقیناً قطعاً کافر ہے اگر چہ کروڑ بار کلمہ پڑھے الخ(ایضاً ص:15)پھر آگے خان صاحب نے اپنے خیال کے مطابق ضروریاتِ دین کے منکر فرقوں اور ان فرقوں کے بانیوں کا،اور ان کے اقوال کا قدرے تفصیل سے ذکر کیا ہے،چناں چہ خان صاحب لکھتے ہیں:یا دو ایک برے نام(گاؤ،خر،صفدر)ذکر کرکے کہے نماز میں جناب رسالت مآب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی طرف خیال لے جانا فلاں فلاں کے تصور میں ڈوب جانے سے بدتر ہے لعنۃ اللہ علی مقالتہ الخبیثۃ.............الخ اس کے بعد بزعمِ خود ایسے متعدد کفریات کا ذکر کرتے ہیں اور آخر میں فیصلہ یہ دیتے ہیں کہ یہ سب فرقے بالقطع والیقین کا فر مطلق ہیں(ایضاً ص:60)اس سے معلوم ہوا کہ بقول خان صاحب حضرت شاہ محمد اسماعیل شہید رحمۃ اللہ تعالی علیہ ان کفریات کی وجہ سے بالقطع والیقین کافر مطلق ہیں......"
(عباراتِ اکابر، ص:104، ط: مکتبہ صفدریہ)
نیز یہ بھی ملحوظ رہے کہ شاہ اسماعیل شہید علیہ الرحمۃ کی طرف منسوب عبارت اصل فارسی میں ہے،اوروہ یہ ہے"وصرفِ ہمت بسوئے شیخ وامثالِ آن از معظمین گو جنابِ رسالتِ مآب باشند بچندیں بدتر از استغراق در صورت گاؤ،خر خود است۔"(صراطِ مستقیم فارسی،ص:66)جس کاصحیح اردوترجمہ یہ ہے" اورشیخ یا انہی جیسے اوربزرگوں کی طرف خواہ جنات رسالت مآبﷺ ہی ہوں، اپنی ہمت کولگادینا، اپنے بیل اور گدھے کی صورت میں مستغرق ہونےسے زیادہ بُرا ہے۔"(صراطِ مستقیم مترجم اردو،ص:168)سائل نےاپنے سوال میں جو" اگر نماز میں گدھے اور کتے کا خیال آئے تو نماز نہیں ٹوٹتی لیکن اگر نماز میں حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا خیال آجاۓ تو نماز ٹوٹ جاتی ہے ۔"عبارت لکھی ہے ،یہ شاہ اسماعیل شہید علیہ الرحمۃ کی طرف منسوب عبارت کا صحیح ترجمہ نہیں ہے۔
چوں کہ امامِ اہلِ سنت شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر نوراللہ مرقدہ نے اپنی کتاب"عباراتِ اکابر"میں مولوی احمد رضا خان بریلوی کے اعتراض کو بھی نقل کیا ہے،اورشاہ اسماعیل صاحب شہید علیہ الرحمۃ کی طرف منسوب فارسی عبارت کو اردو ترجمہ کے ساتھ نقل کرکے خان صاحب کے شاہ اسماعیل صاحب شہید علیہ الرحمۃپر کیے جانے والے اعتراض کےتقریباً دس جوابات دے کر شاہ اسماعیل شہید علیہ الرحمۃ کی تکفیر کے بارے میں خان صاحب کی تلون مزاجی کو بیان کیا ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہوعباراتِ اکابر،صفحہ:86سے110تک،یہاں مذکورہ کتاب سے اعتراض ، اور چندجوابات کو نقل کیا جاتاہے:
عباراتِ اکابر میں ہے:
"خان صاحب بریلوی حضرت شاہ محمد اسماعیل صاحب شہید فی سبیل اللہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے بزعمِ خود کفریات کو شمارکرتے ہوئے لکھتے ہیں۔کفریہ 28(ص29)یہ کفریہ اٹھائیس سب سے بدتر خبیث،( صراطِ مستقیم ص95)، بمقتضائے ظلمات بعضها فوق بعض از وسوسہ ِ زنا خیالِ مجامعتِ زوجہِ خود بہتر است وصرفِ ہمت بسوئے شیخ وامثالِ آن از معظمین گو جنابِ رسالتِ مآب باشند بچندیں بدتر از استغراق در صورت گاؤ،خر خود است کہ خیال آں با تعظیم واجلال بسویدائے قلب ِ انسان می چسپد،بخلاف خیالِ گاؤ ،خر کہ نہ آں قدر چسپیدگی مے بود ونہ تعظیم بلکہ مہان محقر می بود وایں تعظیم واجلالِ غیر کہ در نماز ملحوظ ومقصود مے شود بشرک میکشد ۔
مسلمانوں!مسلمانوں!!خدارا ان ناپاک ملعونی شیطانی کلموں کو غور کرو محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی طرف نماز میں خیال لےجانا ظلمت بالائے ظلمت ہے،کسی فاحشہ رنڈی کے تصور اوراس کے ساتھ زنا کا خیال کرنے سے بھی برا ہے،اپنے بیل یا گدھے کے تصور میں ہمہ تن ڈوب جانے سے بدرجہا بدتر ہے،ہاں واقعی رنڈی نے تو دل نہ دکھایا،گدھےنےتواندرنی صدمہ نہ پہنچایا،نیچاتو محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے دکھایا کہ قرآنِ عظیم میں وخاتم النبیین پڑھ کر تازی نبوتوں کادربار جلایا،اُن کا خیال آنا کیوں نہ قہر ہو،اُن کی طرف سے دل میں کیوں نہ زہر ہو،مسلمانوں!للہ انصاف ،کیا ایسا کلمہ کسی اسلامی زبان وقلم سے نکلنے کا ہےحاش للہالخ(الكوكبة الشهابية، ص: 29 /30)
اور نیزلکھتے ہیں1۔اُس نے کس جگر سے محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی نسبت بے دھڑک یہ صریح سبّ ودشنام کے لفظ لکھ دیئے الخ(ص:30)
اور اس کے حاشیہ پر لکھتے ہیں"اوراُن کی شان میں ادنی ٰگستاخی کفر"الخ پھر آگے لکھتے ہیں۔
مسلمانوں!کیا ان گالیوں کی محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو اطلاع نہ ہوئی یا مطلع ہوکر ان سے ایذاء پہنچی،واللہ واللہ جو انہیں ایذاء دے اُس پر دنیاوآخرت میں اللہ جباروقہار کی لعنت1ھ(ص30 /31)
اور پھر آگے لکھتے ہیں کہ"اور انصاف کیجئے تو اس کھلی گستاخی میں کوئی تاویل کی جگہ بھی نہیں" الخ(ص:32)
خان صاحب کے اس بیان سے معلوم ہواکہ معاذاللہ ثم معاذاللہ حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وبارک وسلم کی کھلی گستاخی کی ہےاور صریح الفاظ میں گالی دی ہے کہ اس میں کسی تاویل کی جگہ بھی نہیں ہے،اورخدا کی قسم اس سے آپ کو اذیت بھی پہنچی اور اس کی اطلاع بھی آپ کو ہوئی،مولوی محمد عمر صاحب نے بھی یہ اعتراض "مقیاسِ حنفیت"ص:114میں ذکر کیاہے۔
آپ پہلے "صراطِ مستقیم" کامکمل مضمون سن لیں ،پھر جواب ملاحظہ کریں ،ہم نے عوام کے فائدہ کے لیے "صراطِ مستقیم "مترجم اردو پر اکتفاء کیا ہے،ضروری حصہ ہم فارسی کا بھی عرض کردیں گےانشاء اللہ تعالی۔
"دوسری ہدایت
عبادات میں خلل انداز چیزوں کے تفصیلی ذکر اور ان کے علاجوں کے بیان میں اور اس میں تین افاد ے ہیں:
پہلا افاده
نفس اور شیطان دونوں نماز میں خلل انداز ہوتے ہیں۔ نفس تو اس طرح سے کہ سستی کرتا ہے اور اپنا آرام چاہتا ہے اور ارکان نماز کےادا کر نے میں جلدی کرتا ہے تا کہ جلدی فراغت حاصل ہو سکے اور سور ہے یا آرام کرتے اور اپنی محبوب چیز میں مشغول ہو جائے اور نماز کے پڑھنے میں قیام اور رکوع اور سجدہ اور قعدہ مسنون طور پر نہیں کرتا بلکہ لا غراور فالج زدہ لوگوں کی طرح اس کے اعضاء میں سستی اور استرخا پیدا ہو جاتا ہے اور اپنے اعضا کو ارکان نماز کے ساتھ بے پروائی کی وجہ سے کیف ما اتفق یا جس طرح اس کی بدنی راحت کے موافق ہو رکھتا ہے اور اسی طرح تپ زدہ لوگوں کی مانند حواس باطنہ کی پراگندگی اور وہم اور خیال کی پریشانی اس کے معترض ِحال ہو کر نماز کی طرف قوی باطنہ اور اعضائے ظاہرہ کی تو جہ میں برا خلل ڈالتی ہے ولیکن شیطان وسوسہ ڈال کر خلل اندازی کرتا ہے اور نمازہ کی شان میں سبکی اور اس سے بے پروائی اور اس کو چنداں کارآمد نہ جاننا اس کے بدترین وساوس سے ہے اور یہ وسوسہ فرض کے استخفاف اور انکار کی وجہ سے بہت جلدی کفر تک پہنچا دیتی ہے اور آدمی کو کا فرکر دیتا ہےاور اس کا ادنی وسوسہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اور اس کی ہم کلامی اور مناجات کی لذت سے اس طرح غافل کر دیتا ہے کہ رکعتوں یاتسبیحوں کی گنتی کو اچھی طرح جاننا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی غلطی یا سہو واقع ہو جائے اور قرآن کے حافظ کو غلطی سے بچنے کے واسطے متشابہاتِ قرآنی کے خیال میں ڈال دیتا ہے با وجود آنکہ وہی نماز خواں ایک دفعہ یا دو دفعہ یا سو دفعہ آزما چکا ہوتا ہے کہ بقائے حضور میں نہ تو تسبیحوں اور رکعتوں کی تعداد میں کوئی خلل واقع ہوتا ہے اور نہ قرآن میں تشابہ واقع ہوتا ہے۔ یہ شیطان کا مکر ہے اور رکعتوں اورتشبیہوں اور متشابہات کا یا د دلانا تو اس کا مقصود نہیں بلکہ نمازی کو اس کے اعلیٰ مرتبہ سے ادنی مرتبہ کی طرف اتار نا مقصود ہے۔ یہاں تک کہ کشاں کشاں اپنے اصلی مقصود کی طرف جا پہنچاتا ہے اور اس مردود کا اصلی مقصود یہی انکار اور کفر ہے اور اگر اللہ تعالی کے فضل سے اس کا وہ مقصد پورا نہ تو وہ لاچار ہو کہ بمقتضائےإذا فاتك اللحم فاشرب المرقة آہستہ آہستہ گاؤخرکےخیال کی طرف لے جاتا ہے،حتی کہ یہ صورت پیدا ہوجاتی ہے
برزُباں تسبیح ودر دل گاؤخر
گاڈ خر تو ایک مثال ہے حضور خداتعالے کے سوا جو کچھ ہو خواہ گاؤ ہو خواہ گدھا ہاتھی ہو یا اونٹ سب کا یہی حکم ہے۔ طالب علم یہ نہ سمجھیں کہ صیغوں اور ترکیبوں میں ہماری سوچ بچار اس قبیل سے نہیں افسوس افسوس بلکہ یہ تو گاؤ خر کے خیال سے بھی نماز کا ز یادہ مخل ہے۔ اور دانش مند لوگ یہ نہ سمجھیں کہ قرآن پاک میں سے غریب مسائل کے استخراج کا فکر نماز کی تکمیل ہے بلکہ یہ اس کا ناقص کرنا ہے اور اہل مکاشفات یہ خیال نہ کریں کہ نماز میں شیخ کے تصور یا ارواح اور فرشتوں کی ملاقات کی طرف توجہ کرنا بھی اسی نماز کا حاصل کرنا ہے جو مومنوں کے لیے معراج ہے۔ نہیں ہر گز نہیں نمازمیں یہ توجہ بھی ایک شاخ ہے خواہ وہ خفی ہو یا اخفی۔ یہ بھی نہ سمجھے کہ غریب مسائل کا سمجھ میں آجانا اور ارواح و فرشتوں کا کشف نماز میں برا ہے بلکہ اس کام کا ارادہ کرنا اور اپنی ہمت کو اس کی طرف متوجہ کر دینا اور نیت میں اس مدعا کا ملا دینا مخلص لوگوں کے خلوص کے مخالف ہے اور خود بخود مسائل کا دل میں آجانا اور ارواح اور فرشتوں کا کشف ان فاخرہ خلعتوں میں سے ہے جو حضور حق میں مستغرق با خلاص لوگوں کو نہایت مہربانیوں کی وجہ سے عطا ہوا کرتےہیں،پس یہ اُن لوگوں کےحق میں ایسا کمال ہے کہ مثال کے موقع پر مجسم ہوگیا ہے،اوراُن کی نماز ایسی عبادت ہے کہ اُس کا ثمرہ آنکھوں کے سامنے آگیا ہے۔ہاں حاجتوں کی وہ دعائیں جو باکمال نمازی سے مطلق بے نیاز کی ذات میں حاجت روائی کے منحصر ہونے کے اعتقاد کے باعث عین نماز میں صادر ہوتی ہیں اسی قبیل سے ہیں،یعنی نماز کے لیے کمال ہے گو وہ قلیل حاجتیں معاش ہی کے متعلق کیوں نہ ہو،اوراپنی حاجتوں کے بارے میں نفس کے ساتھ مشورے کرنا قبیح وسوسوں اور نماز کے نقصان میں سے ہے اور جو کچھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نماز میں سامان لشکر کی تدبیر کیا کرتے تھے سو اس قصہ سے مغرور ہو کراپنی نماز کوتباہ نہ کرنا چا ہیے۔
کارِ پاکاں را قیاس از خود مگیر گرچہ ماند در نوشتن شیر و شِیر
حضرت خضرعلیہ السلام کےلیے تو کشتی کےتوڑنے اوربےگناہ بچے کومارڈالنے میں بڑا ثواب تھا اوردوسروں کےلیے نہایت درجے کاگناہ ہے۔ جناب فاروق رضی اللہ عنہ کاوہ درجہ تھا کہ لشکر کی تیاری آپ کی نماز میں خلل نہ ہوتی تھی بلکہ وہ بھی نماز کوکامل کرنے والی ہوجاتی تھی، اس لیے کہ وہ تدبیر اللہ جل شانہ کےالہامات سےآپ کے دل میں ڈالی جاتی تھی اورجوشخص خود کسی امر کی تدبیر کی طرف متوجہ ہو، خواہ وہ امر دینی ہویا دنیاوی، بالکل اس کےبرخلاف ہے۔اورجس شخص پریہ مقام کھل جاتا ہےوہ جانتا ہے۔
فارسی عبارت | اردو ترجمہ |
ہاں بمقتضائےظلمات بعضها فوق بعضاز وسوسہ ِ زنا خیالِ مجامعتِ زوجہِ خود بہتر است وصرفِ ہمت بسوئے شیخ وامثالِ آن از معظمین گو جنابِ رسالتِ مآب باشند بچندیں بدتر از استغراق در صورت گاؤ،خر خود است کہ خیال آں با تعظیم واجلال بسویدائے قلب ِ انسان می چسپد،بخلاف خیالِ گاؤ ،خر کہ نہ آں قدر چسپیدگی مے بود ونہ تعظیم بلکہ مہان محقر می بود وایں تعظیم واجلالِ غیر کہ در نماز ملحوظ ومقصود مے شود بشرک میکشد ،بالجملہ منظورِ بیان تفاوت ِ مراتبِ وساوس است انسان راباید کہ آگاہ شدہ بہیچ عائق از قصدِ حضوریِ حق منجم وپس نگردد ورض دریں مقام علاج ایں مخل است بروضعیکہ فہم ہر کس وناکس بآں رسد الخ: (صراطِ مستقیم فارسی،ص:66) | ہاں بمقتضائے ظلمات بعضها فوق بعض زنا کےوسوسے سے اپنی بیوی سےمجامعت کےخیال کا بہتر ہے۔ اورشیخ یا انہی جیسے اوربزرگوں کی طرف خواہ جنات رسالت مآبﷺ ہی ہوں، اپنی ہمت کولگادینا، اپنے بیل اور گدھے کی صورت میں مستغرق ہونےسے زیادہ بُرا ہے۔ کیونکہ شیخ کاخیال توتعظیم اوربزرگی کےساتھ انسان کےدل میں چمٹ جاتاہے اور بیل یا گدھے کےخیال میں نہ تواس قدر چسپیدگی ہوتی ہے نہ تعظیم بلکہ حقیر وذلیل ہوتاہے۔ اورغیر کی یہ تعظیم اوربزرگی جونماز میں ملحوظ ہووہ شرک کی طرف کھینچ لےجاتی ہے۔حاصل کلام اس جگہ وسوسوں کے مرتبوں کےتفاوت کابیان کرنا مقصود ہے،انسان کوچاہیے کہ آگاہی حاصل کرکے کسی مانع کے ساتھ اللہ عزوجل کے حضور سے نہ رکے اورنہ پیچھے ہٹےاوراس موقعہ پر اس خلل کا علاج اس طرح سے بیان کرنا مقصود ہے کہ ہر کس وناکس اس کو سمجھ سکےاھ (صراطِ مستقیم مترجم اردو،ص:97،96،95) |
اس پوری عبارت کو ملحوظ رکھ کر ذیل کے امور کو پیش ِ نظر رکھیے:
(1)۔۔۔۔۔۔۔(5)اس عبارت میں اس کی بھی تصریح موجود ہے کہ ارواح وفرشتوں کا کشف و خیال اور خودبخود مسائل کا دل میں آجانا نماز کےلیے مضر اورمخل نہیں ہےیعنی مثلاً اگر آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وبارک وسلم کی روح مبارک کااوراسی طرح دیگر حضراتِ انبیاء کرام واولیاء عظام علیھم الصلوٰۃ والسلام کی ارواح کا یا فرشتوں کا سنوح( ظہور ) کشف وخیال خود بخود نماز میں آجائےیاخودبخودعجیب وغریب مسائل دل میں پیدا ہوجائیں توان سے نماز میں کچھ خلل نہیں آتا بلکہ یہ ایک بڑی نعمت ہےجو کاملین کو حاصل ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لہذا خان صاحب اوران کے مریدین کایہ کہناکہ صراطِ مستقیم کی عبارت میں خیال آنے کونماز کا مخل بتایاگیاہےقطعاً غلط اورمتکلم کی مراد کےسراسر خلاف ہے کیوں کہ خیال کاخودبخود آنا اور چیز ہے اورقصداً خیال لانا جوصرفِ ہمت کے درجہ کاہوا اورچیز ہے۔
(6)-اس افادہ اورعبارت میں اصل مقصود یہ ہے کہ نماز کو صحیح معنی میں نماز بنایا جائے کہ اس میں قصداً وارادۃً صرف اللہ تعالی کی تعظیم واجلال ہی مقصود ِنظرہواوراس اندازسےنماز کو اداکرے کہ نفس اور شیطان کےتمام حربوں کو بے کار کرکے اپنی باطنی نگاہ اور دھیان صرف رب العزت کی طرف رکھے اوراس طریق سےنمازپڑھےکہ گویا وہ آنکھوں کےساتھ پروردگارکودیکھ رہاہےاوراس تصوفانہ عبارت میں گویا اس صحیح حدیث شریف کا ملخص اورمفہوم اداکیاگیاہے جس میں آتاہے کہ سیدنا حضرت جبرائیل علیہ الصلوۃ والسلام نےبصورتِ ایک اجنبی سائل کے آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وبارک وسلم سے چند سوالات کیے تھےجن کےآپ نےجوابات مرحمت فرمائے،اٗن میں سے ایک یہ تھا:
"قال فأخبرني عن الإحسان؟قال أن تعبدالله كأنك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك"(الحديث ،بخاری،ج:1،ص:12،ومسلم ،ج:29،ومشکوۃ،ج:1،ص:11،وموارد الظمأن،ص:35) | اُس نےدریافت کیا کہ آپ مجھے اخلاص کےبارےمیں خبردیں؟توآنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وبارک وسلم نےارشادفرمایا کہ وہ یہ ہے کہ تواللہ تعالی کی اس طرح عبادت کر کہ گویا تواُس کودیکھ رہاہے،اگر تواس کونہیں دیکھ رہا(یعنی یہ درجہ تجھے حاصل نہ ہو)توبے شک وہ توتجھےدیکھ رہا ہے۔ |
یعنی عابد کاپہلا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنی عبادت کو (اور ظاہر امر ہے کہ تمام عبادات میں نماز کو اولین مقام حاصل ہے)ایسی پرسرور اور وجد آفرین بنائے کہ گویاوہ رب العزت سے ہم کلام ہورہاہےاوراس کےجمال اورحُسن کااپنی آنکھوں سےمشاہدہ کررہاہےاوراس کوایسااستغراق اورحضور حاصل ہے کہ وہ دنیاومافیھاسےبےنیاز وبےپرواہوکراگرتعلق اورلگاؤرکھتاہےتوصرف اپنےسچےآقا،اپنےمعبود ِبرحق اوراپنےمحبوب ِحقیقی سے،اس موقع پراگر اٗس کےسامنےکوئی چیز ہےتوصرف رب ذوالجلال کاجمال ہے،اگر وہ دیکھ رہاہےتوصرف اسی کو،اگر وہ ہم کلام ہےتوصرف اسی سے،اوروہ یقین کرے کہ وہ اپنےمحسن اورمنعم کےدیدار سےلطف اندوز ہورہاہےاوردنیاومافیھاکی اس کومطلقاً کوئی خبر ہی نہیں اور نہ دنیا کی کسی چیز کی اٗس کادھیان ہے،بقولِ حافظ شیرازی علیہ الرحمۃ ؎
حضوری گرہمی خواہی و از غائب مشو حافظ
متی ماتلق من تهویٰ دع الدنیا ومافیھا
(یعنی اگر تو اُس کی حضوری چاہتا ہے تواس سے غائب نہ ہو،اےحافظ!جب تو اپنے محبوب سے مل گیا تودنیا ومافیہا کوچھوڑدے)
اوراگر کسی کویہ درجہ حاصل نہ ہو تویہ یقین توکرے کہ پروردگار مجھے دیکھ رہا ہے اورمیں اس کے دربار میں اس کے سامنے حاضرہوکر اس کی عبادت کررہا ہوں،صراطِ مستقیم کی اس ساری عبارت کا خلاصہ اور ماحصل یہی حضورِ قلب ہے،اور کسی سمجھ دار پر یہ مخفی نہیں ہوسکتا۔
(7)-اس عبارت میں تصریح ہے کہ خود بخود ارواح وفرشتوں اورمسائل کا کشف وسنوح ( ظہور ) اور خیال نماز کے لیے مضر نہیں ؛کیوں کہ اس میں انسان کے قصد وارادہ کا دخل ہی نہیں ،اوریہ خیال غیر اختیاری طور پر آتا ہے،ہاں غیر اللہ کی طرف نماز میں"صرفِ ہمت"یعنی قصداً اپنی پوری توجہ ماسویٰ اللہ کی طرف مبذول کردینانماز کے لیےمضر ہے اس لیے کہ جب کسی نے اپنے ارادہ سے اپنی پوری توجہ غیر اللہ کی طرف صرف کردی تو جس کی بندگی اور عبادت میں مصروف تھااورجس کے لیے نماز پڑھ رہا تھا اس سے غفلت اور بے پرواہی برتی اورہرکس وناکس جانتا ہےکہ نماز وبندگی اور عبادت تو ہو پروردگار کی لیکن پوری توجہ ہو دوسری طرف ،اوراپنے حقیقی آقا سے بے نیازی ہو(گو غیرشعوری پر ہی سہی)توایسی نماز کیانماز ہوگی؟اورایسی عبادت کو عبادت کادرجہ کیاحاصل ہوگا؟یہ تو اس کا مصداق ہے کہ۔ ؎
برزُباں تسبیح ودر دل گاؤخر ایں چنیں تسبیح کئے دارد اثر
(زبان پر اللہ اللہ اور دل میں گائے گدھے(مال ودولت)کاتصورہے،اگراس قسم کی تسبیح ہے تواس کا اثر کیا ہوگا،ازمجیب)
اس کویوں سمجھئے کہ اگر کوئی شخص دنیا کی کسی عدالت میں کسی جج اور مجسٹریٹ کے سامنے کھڑا ہواوراس کو بیان دےرہا ہومگر وہ بجائے اس سے ہم کلام ہونے کے عدالت کے وقت میں جج کی موجودگی میں کسی اورسے کلام کررہا ہےیاجج کی طرف توجہ کرنے کےبجائے قصداً کسی اورطرف دیکھ رہا ہےتوبہت ممکن ہےکہ اس پرتوہینِ عدالت کا مقدمہ چلے اوروہ اپنے کئےکاخمیازہ بھگتے،یہ برائے نام حاکم اس احکم الحاکمین کےمقابلہ میں اوریہ مجازی عدالتیں رب العزت کی سچی عدالت کے مقابلہ میں کیاوقعت رکھتی ہیں؟چاہیے تویہ تھا کہ ایسے بےپرواہ عابد اور مغفل نمازی پر آسمان سے فوراً بجلی گرتی اوروہ بھسم ہوجاتا ،آندھی آتی اور اس کو کسی گمنام کنویں اورگڑھے میں پھینک دیتی،آسمان سے پتھر برسائے جاتے اوراس کابھیجا نکال دیا جاتا،آگ آتی اور اس کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنادیتی، زمین شق ہوتی اوریہ سارے کاسارااس میں دھنسادیا جاتا،مگر پروردگار توارحم الراحمین ہے وہ با ایں ہمہ اس سے درگزر فرماتا ہے،آخر میں اگر توبہ نصیب ہو اورخاتمہ بالخیر ہوجائے تودیگر گناہوں کی طرح یہ جرم بھی معاف ہوجائے گا،ورنہ وہ "دیرگیرد وسخت گیرد مرترا"توہے ہی۔
صراطِ مستقیم کی اس عبارت میں جس پر خان صاحب بریلوی اور اور اُن کے چیلے اعتراض کرتے ہیں صرفِ ہمت کے الفاظ چمک دار ستاروں کی طرح جھلک رہے ہیں،كأنه كوكب دري اورجس کے معنی آپ نےاپنی ہمت کولگادینا پڑھے ہیں،اس کےمعنی محض تصوراورخیال آنانہیں ،جیساکہ خان صاحب بریلوی اوراُن کے متوسلین کرتے ہیں،بلکہ وہ ایساخیال ہے جس میں قصداً اورارادۃً اپنی پوری ہمت لگادی جائے،بعض صوفیائےکرام کےنزدیک شغلِ برزخ،شغلِ رابطہ،اورصرفِ ہمت ایک خاص اصطلاح ہے وہ یہ کہ اپنی توجہ کو شیخ کی طرف یکسو کرنے کے لیے ہرقسم کےخیالات اور خطرات سے اپنےدل اور ذہن کوخالی کرکے صرف اپنےشیخ ہی کی صورت کو دلجمعی اور یکسوئی کے ساتھ اس اندازسے پیشِ نظر رکھے کہ گویا وہ حاضرہےاوراس کے علاوہ اورکسی چیز کی طرف دھیان نہ ہو،بس نہ ہی شیخ دل میں سمایا ہواہو،اوردل میں صرف اسی کے لئے جگہ ہو...............الغرض صرفِ ہمت اورشغلِ برزخ کی حقیقت یہ ہے کہ پوری تعیین اورتشخیص کے ساتھ شیخ کی صورت کو خیال میں حاضرکرے اوراپنی ساری ہمت سے اس صورت کی طرف متوجہ ہو اوردل کو بالکل اسی ہی کی طرف متوجہ کرے،اور ظاہر امرہےکہ جب ماسوی اللہ میں سےکسی چیزکی طرف صرفِ ہمت کرےگاتودل اوردماغ میں وہی چیزآئےگی،اس کامطلب یہ ہواکہ معاذاللہ تعالی گویاعینِ نمازمیں اللہ تعالی کی طرف بھی توجہ باقی نہ رہی اور غیر ہی دل و دماغ میں بستے رہے اور جب نماز اللہ تعالی کے لئے ہے تو غیر کی طرف یہ صرف ہمت کیوں کر درست ہوگی ؟ اور نمازمیں اس سے ضرر اور خرابی کیوں نہ پیدا ہوگی ؟ خور فرمائیے ! کہ عبادت اور نماز میں احسان اور اخلاص پیدا کرنے کیلئے کتنی اعلیٰ اور اونچی بات بیان کی گئی ہے مگر افسوس ہے کہ شرعی تصوف کی یہ مطلوب باریکیاں نا اہل لوگوں کے ہاتھوں چڑھ گئی ہیں اور بجائے ان کی تحسین کے ان کی الٹی برائی بیان کرتے ہیں ۔ بقول علامہ اقبال علیہ الرحمہ
زاغوں کےتصرف میں عقابوں کےنشیمن
8)-خان صاحب بریلوی اور ان کے معتقدین یہ باطل دعوی کرتے ہیں کہ اس عبارت میں سردار دو جہاں سید کون و مکان حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی معاذ اللہ تعالیٰ تو ہین کی گئی ہے ، اور واللہ واللہ اس سے آپ کو اذیت پہنچی ہے اور داللہ آپ کو اس کی اطلاع بھی ہوئی ہے ، لیکن یہ سب کا سب ان کا باطل دعوی اور نرابے بنیاد مفروض ہے اس لئے کہ اس عبارت میں تو آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وبارک وسلم کی تعظیم در توقیر اور احترام و اجلال کا صراحت سے ذکر موجود ہے کہ چوں کہ آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وبارک وسلم کی عقیدت و محبت اور تعظیم بزرگی محب انسان کے دل کی تہ میں پیوستہ ہوتی ہے اور کون مسلمان ہے جوان کو اپنے دل اور ذہن سے نکال باہر کرنے پر راضی اور آمادہ ہو گا اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ آپ کی محبت اورتعظیم میں سرشارہوکراپنےدلکےمہمان خانہ میں اس بلندترین مہمان کی آمدپرخوش ہوگااورسرورووجدکی کیفیت اس پرطاری ہوگی اوروہ ہمہ تن آپ ہی کی طرف متوجہ ہوگا اوریہ توجہ اپنےمقام پر بلاشبہ ایک بہت بڑی خوبی اورایک عمدہ ترین ایمانی کارنامہ ہےمگرنماز کی حالت میں ہمہ تن توجہ اورصرف ہمت اوردل کو بالکل آپ ہی کی طرف متوجہ کر دینا نماز کے لئے سخت مضر ہے؛ کیوں کہ اس طرح سے اللہ تعالی کی طرف توجہ یا تو بالکل ختم ہو جائے گی یا کم از کم نہایت ضعیف اور کمزور رہ جائے گی حالاں کہ روح عبادت و نماز ہی یہ تھی کہ ان تعبد الله كانک تراہ اس کی ایسی مثال سمجھے جیسے کوئی شخص فریضہ حج کی نیت کر کے عازم سفر ہوتا ہے اور پہلے مدینہ طیبہ پہنچتا ہے لیکن وہ روضہ اقدس کو دیکھ کر اورمسجد نبوی کا مشاہدہ کر کے آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وبارک وسلم کی محبت او عشق ، اور جمال و کمال میں اس انداز سے محوادر سرشار ہو جاتا ہے کہ ارکان حج کی طرف اسکی مطلقاً توجہ ہی نہیں رہتی نہ تو وہ میدان عرفات میں حاضری دیتا ہے اور نہ مزدلفہ اور منی میں اور نہ تو وہ جمرات کی رمی کرتا ہے اور نہ طواف زیارت وغیرہ دیگر ارکان حج ادا کرتا ہے حتی کے دن ہی گزر جاتے ہیں اور فانی زندگی کا کچھ پتہ ہی نہیں کہ پھر کیا ہو ؟ کیا ایسے شخص کا حج ادا ہو جائے گا ؟ اور کیا وہ فریضہ حج کی ادائیگی سے سبکدوش ہو جائے گا ؟
ہرگز نہیں ! اس شخص کے لئے اس موقعہ پر روضہ اقدس کے سامنے ڈیرا ڈال دینا سخت مضر ہو گا ، بنسبت اس کے کہ وہ کسی بازار میں رہتا ، کیونکہ بازار یا اس کی کسی چیز کے ساتھ نہ تو اس کی محبت ہے نہ عقیدت وہ بہر صورت ، وہاں سے نکل کر اپنے فریضہ حج کی طرف ساعی ہوگا ۔ ہاں فریضہ حج ادا کر چکنے کے بعد اس کی انتہائی سعادت یہ ہے کہ وہ جتنا وقت بھی روضہ اقدس کے پاس گزارے گا اور آپ کی قبر مبارک کے پاس قریب سے صلوۃ وسلام عرض کرے گا تو نہ صرف یہ کہ وہ اجر و ثواب کا مستحق ہوگا بلکہ آپ کا قرب و تعلق اور اس ذریعہ سے اللہ تبارک وتعالے کی رضا، اور خوشنودی کا اعلی مقام بھی اس کو حاصل ہوگا ۔ اللہ تبارک و تعالے ہر سچے مسلمان کو یه دولت و سعادت نصیب فرمائے کہ وہ روضہ رسول پر حاضر ہو کر والہانہ یہ کہے ...
ترس رہی تھیں تیری دیدکوجومدت سے
وہ بے قرار نگاہیں سلام کہتی ہیں
9) -صراط مستقیم کی اس عبارت میں وساوس کے مختلف درجات بیان کئے گئے ہیں کہ بعض کا خطرہ کم اور بعض کا زیادہ ہے ۔ مثلاً زنا کے خیال سے اپنی منکونہ بیوی کے ساتھ جماع کا خیال بہتر ہے کیوں کہ ایک چیز فی نفسہ جائز ہے اور دوسری حرام ہے لہذا حلال کا دسوسہ حرام کی بہ نسبت بہتر ہے اور اسی طرح گاؤو خریعنی دنیا کی چیزوں کے خیال میں مستغرق و منہمک اور محو ہو جانا اس لحاظ سے کم خطر ناک ہے کہ یہ چیزیں صحیح اور کامل مسلمان کے نزدیک حقیر اور ذلیل اور بے وقعت ہوتی ہیں اور ان میں اس کو کوئی لذت و سرور حاصل نہیں ہوتا بلکہ ان سے ایک گونہ اس کو نفرت ہوتی ہے تو لا محالہ وہ ان کو اپنے ذہن اور دل سے فور انکالنے کی سعی کرے گا اور اپنے دل کی گہرائیوں میں ان کو ہرگز جگہ نہ دے گا۔ بخلاف بزرگوں اور ان ہستیوں کے مذکور تصور اور خیال کے کہ چونکہ ان سے مسلمان کی بے حد محبت اور عقیدت ہوتی ہے اس لئے عین
نماز میں صرف ہمت کے درجہ کا خیال اور تصور مضرہے اور علی الخصوص جناب رسالتِ مآب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وبارک وسلم کی طرف صرف ہمت کر کے دل میں، نماز کی حالت میں خیال لانا اور ہمہ وجوہ آپ کی طرف متوجہ ہو جاتا مضر تر ہے کیوں کہ آپ کی بے پناہ عقیدت اور لازوال محبت کے پیش نظر اور بے حد تعظیم وتکریم کے لحاظ سے اس خیال میں منہمک ہو کر آدمی توجہ الی اللہ سے محروم رہ جائے گا جو نماز میں مطلوب تھی اس لئے یہ زیادہ خطرناک ہے کیوں کہ دنیا کی دوسری چیزیں تو بے وقعت حقیر اور ذلیل ہیں اور آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وبارک و وسلم تو ارب اور کھرب بار تعظیم و تکریم کے مستحق ہیں جو ساری مخلوق میں جامع کمالات ہیں ۔۔
جہاں کے سارے کمالات ایک تجھ میں ہیں ترے کمال کسی میں نہیں مگر دوچار (حضرت نانوتوی رحمہ اللہ)
(۱۰) - اگر سچ مچ "صراط مستقیم" کی اس عبارت میں معاذ اللہ تعالی آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وبارک وسلم کی توہین اور گستاخی کی گئی ہے ، اور گستاخی بھی بقول خان صاحب بریلوی ایسی کھلی کہ اس میں کسی تا دیل کی جگہ بھی نہیں اور اس گستاخی سے واللہ واللہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ایذاء بھی پہنچی اور داللہ واللہ آپ کو اطلاع بھی ہوئی تو ایسے گستاخ کے کفر میں کیا شک ہو سکتا ہے جو کھلی اور ناقابل تا دیل گستاخی کرے ؟
ہمارا تو ایمان ہے اور ہم باحوالہ پہلے لکھ آئے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ و بارک وسلم کی ادنی ترین گستاخی بھی کفر ہے اور اس میں شک کرنا بھی کفر ہے، اگر واقعی حضرت شاہ محمد اسماعیل شہید رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ یا ان کے مرشد حضرت سید صاحب شہید رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس عبارت میں گستاخی کی ہے تو وہ پکے کافر ہیں اور دائرہ ایمان سے خارج ہیں اور ان کو اس صریح گستاخی کے بعد کا فرنہ کہنے والے خود کا فر ہیں ، مگر ہمارے نزدیک تو نہ ان بزرگوں نے اس عبارت میں آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وبارک وسلم کی گستاخی کی اور نہ ہی ان کی مراد ہے اس لئے وہ پکے اورسچےمؤمن محب خدااورعاشق رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مجاہدِ اسلام ہیں،بلکہ فی سبیل اللہ اپنی جانیں قربان کرنےوالےشہیداورزندہ جاوداں ہیں۔۔
فنا فی اللہ کی تہ میں بقا کا راز مضمر ہے
جسے مرنا نہیں آتا اسے جینا نہیں آتا
(عبارات اکابر، ص 86سے103، ط:مکتبہ صفدریہ)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144506102601
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن