کیافرماتےہیں علماءِکرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ چاربھائیوں میں ایک مشترکہ زمین تھی،جس پرچارمیں سےدوبھائیوں نے پوری مشترکہ زمین پراپنےوالدکےایصالِ ثواب کےلیے مسجد بنانےکاارادہ کیا،جب کہ دوبھائی مسجدبنانےکےحق میں نہیں تھے،وہ دوبھائی جومسجدبنانےکےحق میں تھے،انہوں نےاپنےچاچازادبھائی کےساتھ مشترکہ طورپر30بائی 30فٹ میں اسی مشترکہ جگہ پر مسجدبنانےکافیصلہ کیا، اورمسجدکی آدھی زمین کےعوض چاچازادبھائی سےدوسری زمین لےلی،اورچارسال تک اس زمین کواپنےاستعمال میں لاتےرہیں،بعدمیں چاچازادبھائی نےمسجدکی زمین کو بڑھانےکااصرارکیا،اس کے اصرار پر مسجدکی زمین 40بائی 45فٹ کردی گئی، کچھ عرصہ بعداس نےمسجد کی زمین مزید بڑھانےکےلیےتنازع کیا،توان دوبھائیوں نے (جومسجدبنانےکےحق میں تھے)مسجدبنانےسےانکارکردیا،واضح رہے کہ جو دوبھائی مسجدکےحق میں نہیں تھے،ان کاکہناتھاکہ گاؤں کی جامع مسجدپیدل چارمنٹ کےفاصلےپرہے،جامع مسجدکوآبادکرنےکی ضرورت ہے،نئی مسجدبنانےکی ضرورت نہیں ہے،اب مسئلہ مذکورہ کےبارےمیں درج ذیل سوالات کےجوابات مطلوب ہیں ۔
1-جن دوبھائیوں نےمسجدبنانےکاارادہ کیاتھا،ان کےارادہ کرنےسےوہ زمین وقف ہوگئی یانہیں؟جب کہ زمین چاربھائیوں کی مشترکہ ہے،جس میں دوبھائی مسجدبنانےکےحق میں نہیں ۔
2-جامع مسجدقریب ہو،اورعلاقہ گنجان آبادنہ ہو،جامع مسجدمیں صرف ایک صف کےنمازی ہو،ایسی صورت میں دوسری مسجدبناناجائزہےیانہیں ؟
3-مشترکہ زمین وقف کرنےکےلیےسب کی اجازت ضروری ہےیانہیں ؟
4-جس زمین پرمسجدبنانےکاارادہ کیاتھا،اس زمین کی آدھی زمین کےعوض دوبھائیوں نےاپنےچاچازادبھائی سےجوزمین لی تھی ،اورچارسال تک اس کواپنےاستعمال میں لاتےرہے،کیاوہ زمین وقف ہوئی یانہیں؟ آسان الفاظ میں ان سوالات کےجوابات عنایت فرمائیں!
واضح رہےکہ مشاع اورمشترکہ زمین مسجدکےلیےبالاتفاق وقف نہیں ہوتی،اسی طرح محض ارادہ کرنےسےبھی کوئی چیزوقف نہیں ہوتی،جب تک کہ زبان سےایسےالفاظ ادانہ کرےجووقف پردلالت کریں،مثلاًیہ کہ اس قدرجائیدادوقف کی ہے۔
لہٰذاصورتِ مسئولہ میں چاربھائیوں کی مشترکہ زمین کےمتعلق جن دوبھائیوں نے صرف مسجدبنانےکاارادہ کیاتھا،توان کےارادہ کرنےسےشرعاًوہ زمین مسجدکےلیےوقف نہیں ہوئی۔
2-غیرگنجان آبادعلاقہ میں ایک مسجدجس میں صرف ایک صف کےنمازی ہوں،اس کےقریب دوسری مسجدبناناجائزتوہے،البتہ بہتر یہی ہے کہ بلاوجہ نئی مسجد بنانے کی بجائے علاقے کی پرانی مسجد کو آباد کیا جائے۔
3- مسجدکےلیےمشترکہ زمین وقف کرنابالاتفاق درست نہیں ہے،البتہ مسجدکےعلاوہ دوسرےکارِخیرمیں امام ابویوسف رحمہ اللہ کےنزدیک جائزہے۔
4- جس زمین پرمسجدبنانےکاارادہ کیاتھااس زمین کی آدھی زمین کےعوض چاچازادبھائی سےجوزمین لی تھی،وہ زمین وقف نہیں ہوئی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وركنه الألفاظ الخاصة ك) أرضي هذه (صدقة موقوفة مؤبدة على المساكين ونحوه) من الألفاظ كموقوفة لله تعالى أو على وجه الخير أو البر واكتفى أبو يوسف بلفظ موقوفة فقط قال الشهيد ونحن نفتي به للعرف."
(کتاب الوقف،ج:4،ص:340،ط:سعید)
وفیہ ایضاً:
"(ويفرز)فلا يجوز وقف مشاع يقسم خلافا للثاني .
(قوله: ويفرز) أي بالقسمة وهذا الشرط وإن كان مفرعا على اشتراط القبض؛ لأن القسمة من تمامه إلا أنه نص عليه إيضاحا وأبو يوسف لما لم يشترط التسليم أجاز وقف المشاع، والخلاف فيما يقبل القسمة، أما ما لا يقبلها كالحمام والبئر والرحى فيجوز اتفاقا إلا في المسجد والمقبرة لأن بقاء الشركة يمنع الخلوص لله تعالى نهر وفتح."
(کتاب الوقف،ج:4،ص:348،ط:سعید)
الجامع لاحکام القرآن للقرطبی میں ہے:
"ولا يمنع بناء المساجد إلا أن يقصدوا الشقاق والخلاف، بأن يبنوا مسجدا إلى جنب مسجد أو قربه، يريدون بذلك تفريق أهل المسجد الأول وخرابه واختلاف الكلمة، فإن المسجد الثاني ينقض ويمنع من بنيانه، ولذلك قلنا: لا يجوز أن يكون في المصر جامعان، ولا لمسجد واحد إمامان، ولا يصلي في مسجد جماعتان."
(سورۃ البقرۃ،آیت114،ج:2،ص:78،ط:دار الکتب)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144601101289
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن