والد کا انتقال ہوا ہے ، ورثاء میں ایک بیٹی اور دو پوتے ہیں ۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ بیٹی کو والد کا مکمل ترکہ کیوں نہیں ملتا؟پوتوں کو آدھا کیوں ملتا ہے؟
میں نے سنا تھا کہ بیٹے کا انتقال جب والد کی حیات میں ہوجائے تو پوتوں کو دادا کے ترکہ سے کچھ نہیں ملتا اور اس صورت میں آدھا کیوں ملتا ہے؟
صورت مسئولہ میں جب مرحوم والد کے ورثاء میں صرف ایک بیٹی اور دو پوتے ہیں تو مرحوم کا آدھا ترکہ بیٹی کو ملے گا اور بقیہ آدھا دونوں پوتوں کو ملے گا ۔ بیٹی کو آدھا ذوی الفروض (یعنی وہ ورثاء جن کا حصہ شرعا قرا ن و حدیث سے طے شدہ ہے) ہونے کے اعتبار سے ملے گا اور پوتوں کو عصبہ ہونے کی حیثیت سے ملے گا۔ شریعت کا اصول یہ ہے کہ ترکہ سب سے پہلے ذوی الفروض میں تقسیم ہوتا ہے، ان سے اگر بچ جائے تو پھر عصبات میں تقسیم ہوتا ہے، جو قریبی ہوتا ہے اس کو ملتا ہے۔
البتہ جب مرحوم کی بیٹی کے علاوہ ورثاء میں ایک بیٹا ہوتا تو پھر اس بیٹی اور بیٹے میں مکمل میراث تقسیم ہوتی اور پوتوں کو کچھ نہ ملتا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(فيبدأ بذوي الفروض) أي السهام المقدرة وهم اثنا عشر من النسب ثلاثة من الرجال وسبعة من النساء واثنان من التسبب وهما الزوجان (ثم بالعصبات) أل للجنس فيستوي فيه الواحد والجمع وجمعه للازدواج (النسبية) لأنها أقوى (ثم بالمعتق)
(قوله أي السهام المقدرة) هي النصف والربع والثمن والثلثان والثلث والسدس سراج."
(کتاب الفرائض، ج نمبر ۶، ص نمبر ۷۶۲،ط: ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608100491
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن