والدہ کو والد سے حق مہر میں ایک فلیٹ ملا تھا۔ والد صاحب کا انتقال تو پہلے ہو چکا تھا، اور ان کی حیات ہی میں بیٹوں نے اپناالگ راستہ اختیار کیا تھا۔ والدین کی بیماری وغیرہ میں حال احوال بھی پوچھنے نہیں آتے تھے، بعد میں والدہ کا بھی انتقال ہوگیا۔
والدہ اپنی حیات میں کئی مرتبہ کہہ چکی تھیں کہ”یہ میرا فلیٹ میری بیٹیوں ہی کا ہے“، اور چار یا پانچ پڑوسنوں کو اس پر گواہ بھی بنایا تھا، آخری مرتبہ جب ہسپتال جا رہی تھیں، تو اس وقت تین بیٹیاں موجود تھیں، اور بڑی بیٹی سے کہا کہ ”میں ہسپتال جا رہی ہوں، شاید میں داخل ہو جاؤں یا خدا نخواستہ کچھ ہو جائے، تو یہ الماری اور گھر کی چابی آپ ہی رکھ لیجیے۔“
اب سوال یہ ہے کہ ہم چار بھائی اور چار بہنیں ہیں، والدہ نے مجھ اپنی حیات میں جو بیٹیوں کے لئے اس فلیٹ کا کہا تھا اور گواہ بنایا تھا اور آخر عمر میں چابیاں حوالہ کی تھیں تو اس کا اعتبار ہے یا نہیں ؟ یعنی یہ فلیٹ بیٹیوں کے حصے میں ہوگا یا بیٹے بھی اس میں شریک ہوں گے؟
واضح رہے کہ کسی بھی چیز کو ہبہ (گِفٹ) کرنے کے لیے ضروری ہے کہ واہب (ہبہ کرنے والا) موہوبہ چیز (جس چیز کا ہبہ کیا جا رہا ہے) کو موہوب لہ (جس کو ہبہ کیا جا رہا ہے) کے نام کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کا مکمل قبضہ اور تصرف بھی دے دے۔ نیز، موہوبہ چیز سے اپنا تصرف مکمل طور پر ختم کر دے۔ صرف یہ کہہ دینا کہ ”یہ میرا فلیٹ میری بیٹیوں ہی کا ہے“ شرعاً ہبہ کے درست ہونے کے لیے کافی نہیں ہے۔
صورتِ مسئولہ میں چونکہ والدہ نے بیٹیوں کو اپنے مذکورہ فلیٹ کا مالکانہ قبضہ اور تصرف کے ساتھ نہیں دیا تھا، بلکہ آخری وقت میں اس فلیٹ میں مقیم رہنا اور ہسپتال جاتے ہوئے بڑی بیٹی سے کہنا (جبکہ تین بیٹیاں موجود تھیں) کہ :”میں ہسپتال جا رہی ہوں، شاید میں داخل ہو جاؤں یا خدا نخواستہ کچھ ہو جائے، تو یہ الماری اور گھر کی چابی آپ ہی رکھ لیجیے“،یہ اِس بات کی علامت ہے کہ والدہ نے زندگی میں بیٹیوں کو مالکانہ قبضہ اور تصرف نہیں دیا تھا؛ لہٰذا یہ فلیٹ مرحومہ ہی کی ملکیت شمار ہوگا۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"الملك لا يثبت في الهبة بالعقد قبل القبض - عندنا - وقال مالك - رحمه الله تعالى - يثبت؛ لأنه عقد تمليك؛ فلا يتوقف ثبوت الملك به على القبض كعقد البيع، بل: أولى؛ لأن هناك الحاجة إلى إثبات الملك من الجانبين فمن جانب واحد أولى، وحجتنا في ذلك ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم: «لا تجوز الهبة إلا مقبوضة» معناه: لا يثبت الحكم، وهو الملك؛ إذ الجواز ثابت قبل القبض بالاتفاق، والصحابة اتفقوا على هذا؛ فقد ذكر أقاويلهم في الكتاب؛ ولأن هذا عقد تبرع، فلا يثبت الملك فيه بمجرد القبول كالوصية، وتأثيره: أن عقد التبرع ضعيف في نفسه؛ ولهذا لا يتعلق به صفة اللزوم. والملك الثابت للواهب كان قويا؛ فلا يزول بالسبب الضعيف حتى ينضم إليه ما يتأيد به: وهو موته في الوصية؛ لكون الموت منافيا لملكه، وتسليمه في الهبة لإزالة يده عنه بعد إيجاب عقد التمليك لغيره، يوضحه: أن له في ماله ملك العين وملك اليد. فتبرعه بإزالة ملك العين بالهبة لا يوجب استحقاق ما لم يتبرع به عليه - وهو اليد -. ولو أثبتنا الملك للموهوب له قبل التسليم وجب على الواهب تسليمه إليه، وذلك يخالف موضوع التبرع - بخلاف المعاوضات -، والصدقة كالهبة - عندنا - في أنه لا يوجب الملك للمتصدق عليه إلا بالقبض خلافا لمالك رحمه الله."
(کتاب الھبة،ج:12،ص:47،ط:دار المعرفة)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية."
(كتاب الهبة،الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لایجوز، ج:4،ص:378،ط:دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية."
(کتاب الھبة،ج:5،ص:690،ط:سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144609100011
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن