بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1446ھ 18 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

صرف نقدی پیسے ہوں تونصاب کب بنےگا؟


سوال

میرے پاس صرف نقدی یعنی پیسے ہیں تو میراصاحب نصاب بننےکا حساب کیسے ہو گا؟

جواب

اگر کسی کے پاس صرف نقدی ہو تو زکاۃ کے واجب ہونے کا نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی  کی قیمت ہے،  چاندی کی قیمت گھٹتی اور بڑھتی رہتی ہے، اس اعتبار سے روپوں کے حساب میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔آج یعنی 5مارچ 2025ء کو چاندی،3268  روپے فی تولہ ہے، اس حساب سے ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت" 1،71570"روپے ہے،  اگر کسی کے پاس ضروریات اصلیہ (رہائشی گھر ،پہننےکےکپڑے،گھریلو سامان ،استعمالی گاڑی اور ہتھیار، اہل علم کےلیےمطالعہ کی کتابیں ،خوردنی اشیاء،کارخانہ کےآلات وغیرہ  اور ذمہ پر موجودقرض ،کے علاوہ اتنی رقم  موجود ہو تو وہ صاحبِ نصاب کہلائے گا، اور سال پورا ہونے پر اس پر زکاۃ کی ادائیگی واجب ہوگی۔

حتمی قیمت جس دن(قربانی یازکاۃ کے لیے) حساب کیاجارہاہواس دن مارکیٹ سے معلوم کرلینی چاہیے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ثم في تقويم عروض التجارة التخيير يقوم بأيهما شاء من الدراهم والدنانير إلا إذا كانت لا تبلغ بأحدهما نصابا فحينئذ تعين التقويم بما يبلغ نصابا هكذا في البحر الرائق."

(کتاب الزکوٰۃ،الفصل الثانی فی العروض،ج:1،ص:179،ط:دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وفارغ عن حاجته الأصلية) ....وهي ما يدفع الهلاك عن الإنسان تحقيقا كالنفقة ودور السكنى وآلات الحرب والثياب المحتاج إليها لدفع الحر أو البرد أو تقديرا كالدين، فإن المديون محتاج إلى قضائه بما في يده من النصاب دفعا عن نفسه الحبس الذي هو كالهلاك وكآلات الحرفة وأثاث المنزل ودواب الركوب وكتب العلم لأهلها فإن الجهل عندهم كالهلاك، فإذا كان له دراهم مستحقة بصرفها إلى تلك الحوائج صارت كالمعدومة."

(کتاب الزکوٰۃ،ج:2،ص:262،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو ضم أحد النصابين إلى الأخرى حتى يؤدي كله من الذهب أو من الفضة لا بأس به لكن يجب أن يكون التقويم بما هو أنفع للفقراء قدرا ورواجا، وإلا فيؤدي من كل واحد ربع عشره كذا في محيط السرخسي."

(کتاب الزکوٰۃ،الفصل الاول فی زکوٰۃالذھب والفضۃ،ج:1،ص:179،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609100034

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں