بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

قرض کے عوض کاروبار میں شریک ہونا


سوال

میں نےاپنے ایک ساتھی کو 2015ء میں ایک لاکھ درہم اماراتی جو اس وقت تقریباً 30 لاکھ پاکستانی روپے بنتے تھے بطورِ قرض دیے، پھر 2016ء میں دوبارہ ایک  لاکھ درہم اماراتی  جو اس وقت پاکستانی 28 لاکھ روپے بنتے تھے، بطورِ قرض دیے،پھر اس دوست نے بار بار اصرار کیا کہ آپ ان پیسوں سےکچھ ہمارے ساتھ کاروبار میں شرکت کریں، تو آپ کو بہت فائدہ ہوگا، میری رضامندی کے بعد وہ پیسے اس نے گاڑیوں کی خرید وفروخت کے کام میں لگائے،لیکن مجھے کچھ بھی نفع یا فائدہ نہیں دیا، جب کہ یہ گاڑیوں کے کام میں  میرے پیسے چھ ماہ لگایا،پھرمیری رقم انہوں نے ایک کمرشل پلازہ میں انویسٹ کی،جب چھ ماہ کے بعد میں نے کچھ نفع وغیرہ کا پوچھا تو کہنے لگے، ہم ایک سوسائٹی بنانے لگے ہیں، آپ کی رقم اس میں لگالی ہے، آپ فکر نہ کریں، آپ کو بہت نفع ہوگا،اس وقت میں نے ان سے درخواست کی، مجھےمیری رقم واپس کردیں، کیوں کہ مجھے دوسری جگہ ایک کمرشل پراپرٹی میں لگانی ہے، جس پر انہوں نے کہا، آپ فکر نہ کریں، اس سے کئی گنا زیادہ نفع  آپ کو ہم دیں گے، الغرض میری رقم انہوں نے سوسائٹی میں لگالی، لیکن میرا کتنا حصہ ہوگا، یا  ہے،انویسٹ میں اور نفع میں،کچھ بھی نہیں بتایا، میرے بار بار پوچھنے پر سات سال کے بعد بتایا کہ آپ کا حصہ ایک فیصد  ہے، جس پر میں راضی نہ ہوا، کیوں کہ میرے کانوں پر سے یہ بات گزری تھی، جس وقت وہ زمین خرید رہے تھے، کہ آپ غم نہ کرے،ہم آپ کو پورا حصہ دیں گے،لیکن اب وہ اپنی بات سے مکر گئے ہیں،میں نے اس وقت ان سے کہا تھا، کہ اس سوسائٹی میں میری انویسٹ ظاہری  طور پر بہت تھوڑی ہے،لیکن چوں کہ اس وقت ان کو زمینیں خریدنے کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی، اس لیے مجھے کہا کہ آپ یہ سمجھیں کہ آپ نے ڈھائی کروڑ انویسٹ کیا ہے، لیکن کوئی بھی معاملہ نہیں لکھا گیا، نیز اس ساتھی نے اپنے کسی شریک یا اپنےبھائی  کو بھی میری انویسٹ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا،ایسے ہی یہ بھی طے نہیں ہوا، کہ جب حساب ہوگا ،تو کون سی کرنسی میں ہوگا اماراتی یا پاکستا نی روپے میں،سوال یہ ہے: اب میرے لیے اس بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شرکت جائز ہونے  کے لیے چند شرائط ضروری ہیں:

(1) منافع حصہٴ مشاع (مثلاً جو کچھ نفع ہوگا اس کا نصف، تہائی) کے طور پر طے ہو، متعین رقم کی شکل میں نفع طے کرنا جائز نہیں ہے، نفع باہمی رضامندی سے کسی بھی تناسب سے طے کیا جاسکتا ہے، كام كرنے والے كے ليے اپنے لگائے ہوئے سرمایہ كے تناسب  سے زياده نفع لينے درست نہیں ہے۔

(2) سرمایہ نقد کی صورت میں  ہو،قرض  کی صورت میں نہ ہو،اگر سرمایہ قرض ہوگاتو شرکت صحیح نہیں ہے۔

(3)بہ وقتِ عقد دونوں کا سرمایہ معلوم ہو، اور نقد کی شکل میں ہو اگر اثاثہ  سامان کی شکل میں ہوگا تو شرکت صحیح نہیں ہے۔

(4) اگر کبھی خسارہ ہوجائے تو تمام شرکاء کو بقدرسرمایہ برداشت کرنا ہوگا، خسارہ کو ایک کے ذمہ لازم کرناشرعاً جائز نہیں ہے۔

 صورتِ مسئولہ  میں سائل  کا اپنے ساتھی کے ذمہ قرض لازم تھا،قرض کی رقم کاروبار میں شراکت کے طور پر شامل  کی گئی،اور قرض کے بدلےشراکت کرنا درست نہیں،لہذا سائل کےساتھی کے ذمہ  قرض کی پوری رقم واپس کرنا لازم ہے،اس پر زائد رقم ادا کرنا لازم نہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأن يكون الربح معلوم القدر، فإن كان مجهولا تفسد الشركة وأن يكون الربح جزءا شائعا في الجملة لا معينا فإن عينا عشرة أو مائة أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدة، كذا في البدائع."

(كتاب الشركة، الباب الأول، الفصل الأول، ج: 2، ص: 302، ط: دارالکفر)

بدائع الصانع میں ہے:

"‌أن ‌يكون الربح جزءا شائعا في الجملة، لا معينا، فإن عينا عشرة، أو مائة، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدة."

(كتاب الشركة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة، ج: 6، ص: 58، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لو كان المال منهما في شركة العنان والعمل على أحدهما إن شرطا الربح على قدر رءوس أموالهما جاز ويكون ربحه له ووضيعته عليه وإن شرطا الربح للعامل أكثر من رأس ماله لم يصح الشرط ويكون مال الدافع عند العامل بضاعة ولكل واحد منهما ربح ماله، كذا في السراجية. ولو شرطا العمل عليهما جميعا صحت الشركة، وإن قل رأس مال أحدهما وكثر رأس مال الآخر واشترطا الربح بينهما على السواء أو على التفاضل فإن الربح بينهما على الشرط، والوضيعة ‌أبدا على قدر رءوس أموالهما، كذا في السراج الوهاج. وإن عمل أحدهما ولم يعمل الآخر بعذر أو بغير عذر صار كعملهما معا، كذا في المضمرات. ولو شرطا كل الربح لأحدهما فإنه لا يجوز، هكذا في النهر الفائق."

(كتاب الشركة، الباب الثالث، الفصل الثاني، ج: 2، ص: 320، ط: دارالکفر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(والربح في الشركة الفاسدة بقدر المال، ولا عبرة بشرط الفضل).

(قوله: والربح إلخ) حاصله أن الشركة الفاسدة إما بدون مال أو به من الجانبين أو من أحدهما، فحكم الأولى أن الربح فيها للعامل كما علمت، والثانية بقدر المال، ولم يذكر أن لأحدهم أجرا؛ لأنه لا أجر للشريك في العمل بالمشترك كما ذكروه في قفيز الطحان والثالثة لرب المال وللآخر أجر مثله."

(‌‌كتاب الشركة، ‌‌فصل في الشركة الفاسدة،  ج: 4، ص: 326، ط: سعید)

درر الحکام فی شرح مجلہ الأحکام العدلیہ میں ہے:

"(يشترط أن يكون ‌رأس ‌مال ‌الشركة ‌عينا ولا يكون دينا أي لا يكون المطلوب من ذمم الناس رأس مال للشركة. مثلا ليس لاثنين أن يتخذا دينهما الذي في ذمة آخر رأس مال للشركة فيعقدا عليه الشركة، وإذا كان رأس مال أحدهما عينا والآخر دينا فلا تصح الشركة أيضا)"

(الكتاب العاشر، الباب السادس، الفصل الثالث،المادة 1341،  ج: 3، ص: 354۔355، ط: دارالجیل)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"يجب على المقترض أن يرد مثل المال الذي اقترضه إن كان المال مثلياً بالاتفاق."

(‌‌القسم الثالث: العقود أو التصرفات المدنية المالية، ‌‌الفصل الثاني: القرض، ‌‌ما يجب رده على المقترض، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606102277

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں