بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

خلوت صحیحہ کے بعد تینوں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں


سوال

زید کا نکاح  زینب کے ساتھ ہواتھا ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ موبائل فون پر ایک دوسرے کے ساتھ باتوں کا سلسہ شروع ہوگیا ایک دفعہ دادا ابو کے گھر میں اکیلے کمرے میں جہاں  کوئی دوسرا بندہ موجود نہیں تھاایک گھنٹہ ملاقات ہوئی تاہم ہمبستری نہیں ہوئی ۔اس کے بعد فون پر میاں بیوی  کسی بات پر  ایک دوسرے سے ناراض ہوئے ،شوہر نے موبائل فون پر باتوں باتوں میں بیوی سے کہا :تجھے طلاق ،تجھے طلاق ہے ، تجھے طلاق ہے ۔

اب دونوں کیے پر نادم ہیں اور دوبارہ نکاح کرنا چاہتے ہیں،کیا یہ دونوں   نکاح ساتھ رہ سکتے ہیں یا نہیں ؟تین طلاقیں واقع ہوئی ہیں یا ایک ؟شرعی حکم سے مطلع فرمائیں۔

جواب

صورت ِ مسئولہ میں چوں کہ  لڑکا اور لڑکی کے درمیان خلوت ِ صحیحہ ہو چکی ہے اور خلوت صحیحہ کے بعد  لڑکے نے ان الفاظ سے اپنی منکوحہ کو تین طلاقیں دیں :"تجھے طلاق  ،تجھے طلاق ہے ،تجھے طلاق ہے"تو تینوں طلاقیں واقع ہو گئیں ہیں اگر چہ رخصتی نہیں ہوئی تھی   اور منکوحہ مذکورہ لڑکے پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ  حرام ہوچکی  ہے ،نکاح ختم ہوگیا ہے ،اب    نہ رجو ع  کی گنجائش ہے اور  نہ  دوبارہ نکاح   ہوسکتا ہے۔مطلقہ اپنی  عدت (پوری تین ماہواریاں )گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

ہاں البتہ اگر مذکورہ لڑکی    عدت(پوری تین ماہواریاں ) گزار کر کسی دوسری جگہ شادی کرے اور اس دوسرےشوہر سے صحبت (جسمانی  تعلق) ہو جائے پھر اس کے بعد وہ  دوسر ا شوہر اسے طلاق دے دے یااس کا انتقال ہوجائے تو اس کی عدت  گزار نے کے بعد مذکورہ لڑکا اس کے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتا ہے ۔

الجوهرة النيرة على مختصر القدوري میں ہے:

"أما وقوع طلاق آخر فقد قيل لا يقع وقيل يقع، وهو الأقرب إلى الصواب."

(کتاب النکاح،الكفاءة في النكاح معتبرة:2/15،ط:المطبعة الخيرية)

فتح القدير للكمال ابن الهمام میں ہے:

"واعلم أن أصحابنا أقاموا ‌الخلوة ‌الصحيحة مقام الوطء في حق بعض الأحكام تأكد المهر وثبوت النسب والعدة والنفقة والسكنى في مدة العدة ومراعاة وقت طلاقها ولم يقيموها مقامه في الإحصان، وحلها للأول والرجعة والميراث، وحرمة البنات. يعني إذا خلا بالمطلقة الرجعية لا يصير مراجعا، وإذا خلا بامرأة ثم طلقها لاتحرم بناتها.و لايرث منها لو ماتت في العدة للاحتياط الواجب في هذه الأحكام. وفي شرح الشافي ذكر تزوج البنت على عكس هذا ففيه خلاف وأما في حق وقوع طلاق آخر ففيه روايتان، والأشبه وقوعه؛ لأن الأحكام لما اختلفت في هذا الباب وجب أن يقع احتياطًا."

(كتاب النكاح،باب المهر:3/333،ط: شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي الحلبي وأولاده بمصر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و إن كان ‌الطلاق‌ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا و يدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق،باب فیما تحل بہ المطلقۃ:1/473،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100151

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں