میرے ایک دوست جو کینیڈا میں مقیم ہیں (عمر 50 سال) نے دوسری شادی ایک مطلقہ خاتون (عمر 47 سال ، جو امریکہ میں مقیم ہیں )کے ساتھ باہمی رضامندی سے کی ، نکاح کی تفصیلات یہ ہے:
نکاح کی مجلس بلاتعطل ریئل ٹائم میں اسکائپ(skype) ویڈیو کال کے ذریعے منعقد کی گئی، میرے دوست نے کینیڈا سے اور خاتون نے امریکہ سے ویڈیو کال میں شرکت کی ، ان دونوں نے پاکستان میں اپنے اپنے وکیل مقررکئے جو پاکستان میں شرکت کر رہے تھے، ان کے ساتھ دو شرعی گواہ بھی موجود تھے اور نکاح خواں صاحب بھی پاکستان میں ویڈیو لنک کے ذریعے شامل تھے، نکاح خواں، گواہ اور وکیل ایک ساتھ بیٹھے تھے،نکاح خواں صاحب نے آغاز میں خاتون سے انکی عدت کے مکمل ہونے کی وضاحت مانگی، جس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی شرعی عدت (تین ماہ واریاں کا عرصہ ) مکمل کر چکی ہیں اور وہ اپنی رضامندی سے عقد ثانی کرنا چاہتی ہیں ، عدت کی تفصیل کے بعد نکاح خواں نے فردًا فردًا میرے دوست اور خاتون سے ان کےوکیلوں کی نامزدگی کی تصدیق حاصل کی جس کے بعد جواب میں دونوں نے اپنے اپنے وکیلوں کی نامزدگی کی تصدیق کی اور وکیلوں کو باقاعدہ اجازت دی ، نکاح خواں نے وکیلوں سے اجازت لے کر نکاح پڑھایا اور ایجاب وقبول کرایا ،آخر میں نکاح خواں نے نکاح کا خطبہ پڑھا اور دعا کرائی، کیا یہ نکاح درست ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ مجلس نکاح میں سائل کے مذکورہ دوست اور خاتون دونوں نے ایک ایک فردکو اپنے نکاح کا وکیل مقرر کیا تھا اور بعد ازاں شرعی گواہوں کی موجودگی میں نکاح خواں نے مرد و عورت دونوں کے وکیل سے ایجاب و قبول کروایا ہو اور انہوں نے اپنے اپنے موکل کے لیے ایجاب و قبول کیا ہے تو ایسی صورت میں شرعًا یہ نکاح منعقد ہو چکا ہے، اور اگر لڑکا لڑکی سے اسکائپ کے ذریعے ایجاب و قبول کرایا ہے تو نکاح منعقد نہیں ہو گا۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:
"ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الأصالة ينعقد بها بطريق النيابة، بالوكالة، والرسالة؛ لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل، وكلام الرسول كلام المرسل، والأصل في جواز الوكالة في باب النكاح ما روي أن النجاشي زوج رسول الله صلى الله عليه وسلم أم حبيبة - رضي الله عنها - فلا يخلو ذلك إما أن فعله بأمر النبي صلى الله عليه وسلم أو لا بأمره، فإن فعله بأمره فهو وكيله، وإن فعله بغير أمره فقد أجاز النبي صلى الله عليه وسلم عقده، والإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة".
(كتاب النكاح، فصل في ركن النكاح، ج: 2 ص: 231 ط: دار الكتب العلمية)
الدر المختارمیں ہے:
"(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين".
(کتاب النكاح، ج: 3 ص: 21 ط: دار الفكر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ويشترط العدد فلا ينعقد النكاح بشاهد واحد هكذا في البدائع، ولا يشترط وصف الذكورة حتى ينعقد بحضور رجل وامرأتين، كذا في الهداية. ولاينعقد بشهادة المرأتين بغير رجل وكذا الخنثيين إذا لم يكن معهما رجل هكذا في فتاوى قاضي خان."
(كتاب النكاح، الباب الأول في تفسير النكاح شرعا وصفته وركنه، ج: 1 ص: 267 ط: دار الفكر بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603102017
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن