میں نے ایک پراپرٹی بیچی تھی، مگر لینے والا ٹائم پر پیسے نہیں دے سکے اور ڈیل کینسل ہوگئی، اب یہ پراپرٹی کسی اور کو بیچ دی ہے، مگر پہلے سے کم قیمت میں بیچی ہے، مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ پہلے والی ڈیل میں مجھے ڈیپوزٹ ملا تھا، اس کے لیے کیا حکم ہے؟ اس کا ڈیپوزٹ پورا واپس کروں یا کچھ بھی واپس نا کروں یا پھر اتنے پیسے کم کرو ں جتنا دوسری ڈیل میں میرا نقصان ہوا ہے۔
برائے مہربانی اس کو وضاحت کے ساتھ بتائیں ؟
صورت ِ مسئولہ میں پہلا سودا باہمی رضامندی سے ختم کرنے کے بعد سائل پر ڈیپازٹ کے نام پر وصول کردہ تمام رقم واپس کرنا شرعا ضروری ہے، دوسرا سودا اگر پہلے سودے سے کم قیمت پر ہوا ہو، تو اس کی تلافی پہلے سودے کے ڈیپازٹ سے کرنا جائز نہیں ہے۔
الوسیط فی شرح القانون المدنی میں ہے:
"و قد يودع مبلغ من النقود أو شيئ آخر مما يهلك بالإستعمال و يكون المودع عنده مأذونا له في إستعماله فلا يرده بالذات و لكن يرد مثله ،و هذه هي الوديعة الناقصة و هي تعتبر قرضا."
(عقد الوديعة، الفصل الأول أركان الوديعة، الفرع الثاني :المحل و السبب في عقد الوديعة، الأشياء التي يجوز إيداعها، ج:7، ص:698، ط: دار إحياء التراث العربي)
فتاوی شامی میں ہے :
"مطلب في التعزير بأخذ المال
(قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.
وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ".
(کتاب الحدود، باب التعزیر، ج: 4، ص: 61، ط: سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144610102000
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن