بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

سودی قرض کے لیے سوفٹ ویئر بنانے کا حکم


سوال

میں ایک سوفٹ ویئر کمپنی میں کام کرتا ہوں، کمپنی نے غیر مسلم کلائنٹ کے لیے سود پر قرضے دینے کے مقصد سے سوفٹ ویئر بنانے کا معاہدہ کیا ہے، ہم سوفٹ ویئر میں بطور ڈیفالٹ سود کی شرح 0 فیصد رکھیں گے اور کلائنٹ کو اپنی مرضی سے سود کی شرح تبدیل کرنے کی اجازت دیں گے، کمپنی کے پاس اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کوئی اور پروجیکٹس نہیں ہیں اور اگر یہ پروجیکٹ نہ ہوا تو کمپنی ڈیفالٹ ہو جائے گی، میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ایسے حالات میں اسلام میں ایسے سوفٹ ویئر پر کام کرنا جائز ہے یا نہیں؟ کیا میری آمدنی حلال ہوگی؟

جواب

صورت مسئولہ میں سود پر قرضہ دینے کے مقصد سے  كسي كے ليے سافٹ ویئر بنانا ناجائز ہے اور اس کی آمدنی حلال نہیں ، اس لیے کہ یہ گناہ کےکاموں میں تعاون ہے اور شرعاً کسی بھی قسم کی معصیت اور گناہ کے کام میں معاون بننا جائز نہیں ۔

کمپنی كے ڈيفالٹ هونے كے اندیشہ كي بناء پر  بھی شرعاً اس طرح سودی معاملہ کے لیے سوفٹ ویئر بنانا جائز نہیں ،سوفٹ ویئر بہت سارے ایسے اداروں کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو کہ جائز اور حلال کام کرتے ہیں، لہذا کمپنی کے مالکان اور ملازمین پر لازم ہے کہ غیرشرعی کاموں میں معاون بننے کے بجائے  دیگر اداروں سے رابطہ کرکے ان کے لیے سوفٹ ویئر کاکام کرلیں ۔ 

قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"{وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَان}." (المائدہ:2)

ترجمہ:"    اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو۔ "(بیان القرآن)

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا محمد بن الصباح، وزهير بن حرب، وعثمان بن أبي شيبة، قالوا: حدثنا هشيم، أخبرنا أبو الزبير، عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»"

(صحيح مسلم، با ب لعن آکل الربا، ومؤکله،ج: 3، صفحہ: 1219، رقم الحدیث: 1598، ط: دار إحياء التراث العربي )

ترجمہ: "حضرت جابر رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے۔ اور ارشاد فرمایا: یہ سب (سود کے گناہ میں) برابر ہیں۔"

بدائع الصنائع میں ہے :

"ومن استأجر حمالا يحمل له الخمر فله الأجر في قول أبي حنيفة,وعند أبي يوسف ومحمد لا أجر له كذا ذكر في الأصل، وذكر في الجامع الصغير أنه يطيب له الأجر في قول أبي حنيفة، وعندهما يكره لهما أن هذه إجارة على المعصية؛ لأن حمل الخمر معصية لكونه إعانة على المعصية، وقد قال الله عز وجل{ولا تعاونوا على الإثم والعدوان} [المائدة: 2] ولهذا لعن الله تعالى عشرة: منهم حاملها والمحمول إليه…………… وبه نقول: إن ذلك معصية، ويكره أكل أجرته."

( كتاب الإجارة،فصل فی انواع شرائط رکن الإجارۃ،ج :4،ص:190 ،دارالكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144610101102

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں