کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہماری مسجد میں مسجد کے دفتر اور امام صاحب کے حجرے میں چوری ہوئی جس کا تخمینہ مبلغ تیس ہزار روپے لگایا گیا۔ ہم نے بغیر ثبوت کے جمعدار سے تفتیش کی تو اس نے اقرار کرلیا ، اس کے بعد ہم نے مذکورہ جمعدار سے بطور جرمانہ تیس ہزار روپے وصول کر لیے جو کہ اس نے کہیں سے سود کی مد میں اٹھا کر ادا کیے۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا ہم مذکورہ رقم کو مسجد کے امور میں خرچ کرسکتے ہیں۔
صورت مسولہ جمعد ار نے تیس ہزار کی رقم ادا کرنے کے لیے سودی قرض لیا ہے اور اس قرض سے رقم ادا کی ہے۔ اگر صورت ایسی ہی ہے تو شرعا جمعدار اس قرض کا مالک بن گیا ہے اور جب مسجد والوں کو وہ رقم ادا کی تو بھی مالک بن گئے ہیں لہذا مسجد والوں کے لیے اس رقم کا استعمال جائز ہے۔
نوٹ: اگر سوال کی منشا کچھ اور ہے تو دوبارہ معلوم کریں۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ويملك المقبوض بالقرض الفاسد لأن الإقراض الفاسد تمليك بمثل مجهول فيفسد وملكه بالقبض كالمقبوض في البيع الفاسد والمقبوض بحكم قرض فاسد يتعين للرد.."
(کتاب البیوع، باب تاسع عشر، ج نمبر ، ص نمبر ۲۰۱، دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102139
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن